کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 44
چند سیاسی باتیں اب دو چار سیاسی باتیں ہوجائیں جن کا میاں بیوی کی زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے۔ بہادرشاہ ظفر، مغل شہزادے اور مغلیہ حکومت کے اہل کار حضرت میاں صاحب کابے حد احترام کرتے تھے اور حضرت کی قلعہ معلیٰ میں آمد ورفت رہتی تھی۔1857ء کی جنگ آزادی کے ابتدائی ایام کا واقعہ ہے کہ ایک دن میاں صاحب قلعے میں گئے۔دیکھا کہ مغل شہزادوں کے ہاتھیوں کے نہایت پر تکلف جھول تیار ہورہے ہیں اور بے فکر شہزادے سامنے پیچوان لگائے باہم گپ لڑارہے ہیں۔میاں صاحب کو یہ صورتحال دیکھ کر نہایت غصہ آیا اور بہادر شاہ سے کہا”کیا آپ ان شہزادوں کو ہاتھیوں پر اپنے ساتھ لے جاکر انگریزوں سے جنگ لڑیں گے“۔۔۔؟ میاں صاحب کی خفگی اور تلخ کلامی بالکل صحیح تھی۔مغل شہزادے تعیش کی زندگی بسر کررہے تھے اور وہ جنگ وقتال کی سختیاں برداشت نہیں کرسکتے تھے۔پھر اس کا جو نتیجہ نکلا وہ برصغیر کی تاریخ حکمرانی کا نہایت الم ناک حصہ ہے۔نہ حکومت رہی، نہ حکمران رہے، نہ مغل شہزادوں کا کہیں وجود رہا۔سب کچھ ختم ہوگیا۔ جنگ آزادی کا آغاز 11مئی 1857ء کومیرٹھ سے ہواتھا۔2۔جولائی 1857ء کو جنرل بخت خاں دہلی پہنچا تو اس کی تحریک پر 34 علمائے کرام نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا، جس پر (چوتھے نمبر پر) میاں صاحب کے دستخط ہیں۔یہ فتویٰ اس زمانے کی اخبارات ”صادق الاخبار“ اور ” ظفر الاخبار“ میں شائع ہوا۔اس کی تفصیل ڈاکٹر محمد ایوب قادری نے اپنی کتاب”1857 شخصیات“ میں بیان کی ہے۔ میاں صاحب انگریزی حکومت کے شدید مخالف ہیں اور اس کی شدت کا اندازہ اس فتوے کے الفاظ سے ہوتا ہے، جس پر انھوں نے دستخظ فرمائے۔لیکن اس کے ساتھ اس کا دوسرا پہلو بھی اپنے زاویہ فکر میں لائیے۔اسلام نے دشمن کی عورتوں کو چونکہ قتل کرنے سے منع فرمایا ہے، اس لیے اس انتہائی تلخ جذبات کے زمانے میں بھی حضرت میاں صاحب اور ان کے تربیت یافتہ لوگ اپنے دشمن اور حریف انگریزوں کی ایک خاتون کو اپنی گرفت میں آنے کے باوجود نہ صرف قتل نہیں کرتے بلکہ اس کی حفاظت کرتے ہیں، اس لیے کہ شریعت اسلامی کاحکم یہی ہے اور اسلام اپنے ماننے والوں کی یہی ذہنی اور عملی تربیت کرتا ہے۔انگریز عورت کی حفاظت اور اس کے علاج معالجے کا واقعہ خود میاں صاحب کے الفاظ میں سنیے۔ ”میں اس زمانے میں ایک دن نماز عصر کے بعد شہر سے باہر چلاگیا، ملامحمد صدیق پشاوری
[1] ۔تفصیل کے لیے دیکھئے:الحیات بعد الممات، ص:70