کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 41
گویا دو مترادف لفظ قرارپاگئے۔جوں ہی علمی اور تدریسی حلقے سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کی زبان سے میاں صاحب کا لفظ ادا ہوافوراً ذہن سید نذیر حسین کی طرف منتقل ہوگیا۔ شوقِ مطالعہ اور وسعت معلومات شیخ الکل میاں صاحب تمام علوم متداولہ میں عمیق نگاہ رکھتے تھے۔قرآن وحدیث، فقہ وکلام، صرف ونحو، اصول حدیث اور اصول فقہ، ادب وانشاء معنی وبیان، منطق وفلسفہ، حساب وریاضی غرض جو علوم اس زمانے میں مروّج ومتد اول تھے، میاں صاحب کو ان سب میں عبور حاصل تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو حفظ واتقان کی بے پناہ دولت سے نوازا تھا۔فقہ حنفیہ تو یوں سمجھئے کہ انھیں پوری طرح ازبر تھی اور اس کی تمام جزئیات ان کے خزانہ ذہن میں محفوظ تھیں۔فتاویٰ عالمگیری کئی ضخیم جلدوں پر محیط ہے اور اسے فقہ حنفیہ کے تمام مسائل کے دائرۃ المعارف کی حیثیت حاصل ہے۔میاں صاحب اس کےتمام گوشوں سے باخبر تھے اور اس کا انھوں نے شروع سے آخر تک تین مرتبہ نہایت دقتِ نظر سے مطالعہ کیا تھا۔ ان علوم درسیہ ورسمیہ کےعلاوہ انھیں اردو شعراء کے اشعار سے بھی دلچسپی تھی اور انھی بہت سےشعرا کے بے شمار اشعار زبانی یاد تھے۔عربی اور فارسی کے بھی بہت سے اشعار ان کے نوکِ زبان تھے۔وعظ وتبلیغ میں بھی منفرد اسلوب کے مالک تھے۔فتویٰ نویسی میں نہایت محتاط تھے اور قرآن وحدیث اور ائمہ فقہ کے مستندحوالوں کی روشنی میں فتویٰ تحریر فرماتےتھے۔طالب علمی کےدور ہی سے طبیعت تحقیق کی طرف مائل تھی اور پھر عمر بھر محققانہ اسلوب ان کےساتھ رہا۔ میاں صاحب کے وسعت مطالعہ کی متعدد مثالیں گذشتہ سطور میں دی جاچکی ہیں۔ایک مثال اور ملاحظہ فرمائیے۔ایک مرتبہ گاڑی میں سوار کہیں جارہے تھے کہ راستے میں مولانا احمد علی سہارن پوری نے ان کو دیکھ لیا۔مولانا لپک کر ان کی طرف بڑھے اورگاڑی روک کر ایک مسئلہ دریافت کیا اور پوچھا کہ یہ مسئلہ کس کتاب میں ملے گا؟فرمایا الاشباہ والنظائر میں موجود ہے۔مولانا احمد علی صاحب اس سے بے حد خوش ہوئے کہ آسانی سے پتاچل گیا اور محنت سے بچ گئے۔ کتب خانوں میں جانےاور مختلف موضوعات کی کتابیں پڑھنے کا میاں صاحب کو بہت شوق تھا۔دہلی میں ان کے زمانے میں تین بڑے کتب خانے تھے جن سے میاں صاحب مسلسل استفادہ کرتے رہتے تھے۔ ایک کتب خانہ لال قلعے کا تھا، جس میں سینکڑوں برس سے کتابوں کا ذخیرہ جمع ہوتا آرہا تھا اور آخری مغل حکمران بہادر شاہ ظفر (1857ء) تک یہ سلسلہ جاری رہا۔