کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 373
اظہار رائے کا حق حاصل ہے۔اس سلسلے میں میری بھی ایک رائے ہے اور میں اس رائے پر قائم رہنے اور اس کے اظہار میں اپنے آپ کو حق بجانب قراردیتا ہوں۔اللہ کا شکر ہے نہ میں کبھی مسلم لیگی تھا، نہ اب ہوں اور نہ پندرہ سولہ مسلم لیگیوں میں سے آئندہ کسی مسلم لیگ سے ان شاء اللہ کبھی تعلق پیدا ہوگا۔
حافظ احمداللہ کے اسلاف میں سے(جیسا کہ ابتدائے مضمون میں عرض کیا گیا) ایک بزرگ قطب شاہ تھے۔وہ خوش کردار بزرگ تھے۔ان سے متعلق بعض عجیب وغریب واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔ایک مرتبہ وہ اپنے مریدوں میں بیٹھے تھے کہ ایک بھنگی اور چرسی آیا۔اس نے ان سے چار آنے مانگے۔انھوں نے چار آنے دے دیے اور وہ چار آنے لے کر خوشی کا اظہار کرتا ہوا چلا گیا۔لوگوں نے قطب شاہ سے کہا آپ نے اسے چار آنے دے دیے، یہ چارآنے کی بھنگ اور چرس پیے گا۔آپ کو اسے پیسے نہیں دینے چاہیے تھے۔انھوں نےفرمایا میں نے تو اسے آج پہلی دفعہ چار آنے دیے ہیں۔(آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا) اس سے پوچھو جو اسے روزانہ دیتا ہے۔
حافظ صاحب جلیل القدر عالم، تجربہ کار معلم، بہت اچھے خطیب اور زوردار مبلغ دین تھے۔جفا کش، پاکدامن، انتہائی غیور، تہجد گزار، صادق القول اورپختہ فکر بزرگ تھے۔برادری کے تمام افراد ان کی بات مانتے تھے۔کسی شرعی مسئلے کے متعلق کوئی شخص فتویٰ پوچھتا تو قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری صراحت سے فتویٰ دیتے۔ان کا معمول تھا کہ عشاء کی نما ز کے بعد فوراًسوجاتے، ادھر اُدھر کی دنیوی باتیں نہ کرتے۔
اسلامی احکام پرعمل اور اس کی تبلیغ کے بارے میں نہایت تیز تھے اور اس باب میں بے حد باحمیت تھے، کوئی بات اس کے خلاف برداشت نہ کرتے۔ان کے موجودہ گاؤں(چک نمبر 36) میں مرزائیوں کے چند گھر آباد تھے جو زمیندار تھے اور وہاں کی جماعت اہلحدیث کے شدید مخالف تھے۔کہا کرتے تھے کہ ان مولویوں کو ہم جب بھی چاہے ختم کردیں گے۔1953میں مرزائیوں کے خلاف تحریک چلی تو اس گاؤں کے مرزائی، مسلمانوں کے خلاف لڑائی پرآمادہ ہوگئے۔ان کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر حافظ احمداللہ نے اپنی برادری کے لوگوں کو ان کے مقابلے کے لیے پکارا۔آناً فاناً انھوں نے مرزائیوں کی گلیوں کا محاصرہ کرلیا۔اتنے میں گاؤں کے اور مسلمان بھی گھروں سے نکل آئے۔باقاعدہ لڑائی ہوئی اورمرزائی میدان چھوڑ گئے۔
اس کے بعد معاملہ تھانے کچہری تک پہنچااور حافظ احمداللہ سمیت حکومت نے بہت سے لوگوں کو گرفتار کرلیا۔کئی مہینے یہ لوگ لائل پور جیل میں رہے۔ایک دفعہ میں بھی جیل کے اندر ان کی بیرکوں میں جا کر ان سے ملاقات کی۔بالآخر مرزائیوں کی درخواست پر صلح ہوئی اور حافظ احمداللہ