کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 372
جوانی میں بڑے طاقتور تھے اور جسمانی حالت بہت مضبوط تھی۔جس زمانے میں چک نمبر 427 گ ب جھوک دادو میں خدمت تدریس انجام دیتے تھے، ان کی جسمانی طاقت کے بارے میں وہاں کے ایک شخص نے کہا تھا کہ یہ حافظ اگرریل کے انجن کو کھینچنا چاہے تو کھینچ سکتا ہے۔ عابد وزاہد عالم دین تھے اور اس کےساتھ خوش مزاج بھی تھے۔ان سےمتعلق ایک دلچسپ لطیفہ سنیے جو واقعہ بھی ہے۔1988ء کی بات ہے کہ میں کسی سلسلے میں ان کے گاؤں چک نمبر 36 گیا۔یہ انتخابات کا زمانہ تھا اور مختلف سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم زوروں پر تھی۔پیپلز پارٹی کے لوگ بھی اپنے اپنے حلقے میں تقریریں کررہے اور ووٹروں سے مل رہے تھے۔جمعے کا دن تھا۔میں وضو کر رہاتھا کہ حافظ صاحب منبر پر کھڑتے ہوئے۔ان کے ہاتھ میں ایک اخبارتھا۔انھوں نے خطبہ مسنونہ پڑھا۔پھر قرآن کی کوئی آیت تلاوت کی۔پنجابی میں اس کا ترجمہ بیان فرمایا۔پھر تقریر کرتے ہوئے اس کا رخ پیپلز پارٹی کی طرف موڑدیا اور اس کی مخالفت کرنے لگے۔جو اخبار ان کے ہاتھ میں تھا اسے کھولا اورا س کا ایک مضمون پڑھنا شروع کیا جو پیپلز پارٹی کے خلاف کسی نے لکھا تھا۔لیکن وقت کم تھا اس لیے مضمون پورا نہیں پڑھاگیا۔اب خطبہ ثانی کے بعد دورکعت نماز پڑھی تو اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص حسن سعید سے کہا تم یہاں سے لے کر یہاں تک حاضرین کو مضمون پڑھ کر سناؤ تاکہ انھیں پتا چلے کہ پیپلز پارٹی غلط پارٹی ہے۔اسے ووٹ نہیں دینا چاہیے۔حسن سعید نے تعمیل ارشاد کی اورباقی ماندہ مضمون پڑھ کر لوگوں کو سنایا۔حافظ صاحب منبر پر جب وہ اخبار پڑھ رہے تھے۔مجھےدور سے شبہ ہواکہ وہ کراچی کاہفت روزہ اخبار”تکبیر“تھا۔ جمعہ پڑھ کر میں نے اپنے گاؤں آنا تھا۔سلام کے لیے حافظ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔جی میں آیا کہ ازراہِ مزاح آہستہ سے ان کے کان میں کہوں کہ اگرخطبہ جمعہ اسی کا نام ہے جو آپ نے ارشاد فرمایا ہے تو میں صبح سے لے کر شام تک اس قسم کے کم از کم بیس خطبے دے سکتا ہوں۔لیکن ا ن کے احترام میں یہ الفاظ نہیں کہہ سکتا تھا اور نہیں کہے۔اگر مجھے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس قسم کے مزاح کو سننے اور اس سے لطف اندوز ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں تو یہ الفاظ ضرور کہتا۔مولانا معین الدین لکھوی یامولاناارشاد الحق اثری یا رانا شفیق پسروری یا عبدالقادر ندوی کی زبان سے اس قسم کے الفاظ سننے کا موقع ملتا تو انھیں یہ بات کہنے میں مجھے کوئی تامل نہ ہوتا۔لیکن حافظ احمداللہ کا احترام مانع رہا۔حالانکہ ایسے مواقع پر میں دل کی بات کہنے میں کبھی جھجک محسوس نہیں کرتا۔ حافظ احمداللہ صاحب سیاست نہیں کرتے تھے لیکن غالباً ان کا رجحان مسلم لیگ کی طرف تھا اورپیپلز پارٹی کے سخت مخالف تھے۔سیاسی جماعتوں کے بارے میں مختلف لوگوں کے مختلف خیالات ہیں۔یہ کوئی اسلامی مسئلہ نہیں ہے۔اپنے علم اورمطالعے کی بنا پر ہر شخص کو ہر جماعت کے متعلق