کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 371
جامع مسجد اہلحدیث(واقع غلہ منڈی) میں ان کادرس قرآن کاسلسلہ بھی جاری رہا۔ 8۔غالباً ایک سال دارالعلوم تقویۃ الاسلام لاہور میں بھی حافظ صاحب نے خدمات سرانجام دیں۔ 9۔جامعہ تعلیمات اسلامیہ(فیصل آباد) میں بھی کچھ مدت ان کا سلسلۂتدریس جاری رہا۔ 10۔صوفی عبداللہ مرحوم ومغفور کے فرمان کے مطابق دو سال جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن کے منصب تدریس پر مامور رہے۔ 11۔ماموں کانجن سے واپس آئے تو مولانا محمد صدیق اورمیاں محمد باقر کے صاحبزادے مولانا عتیق اللہ مرحوم کے اصرار پر دوبارہ مدرسہ خادم القرآن والحدیث میں تدریس کے لیے چک نمبر 427 گ ب جھوک دادوچلے گئے۔وہاں کے مدرسۃ البنات میں بچیوں کو کتب حدیث پڑھانے کی ذمہ داری بھی ان کے سپرد تھی۔کئی سال وہاں ان کا قیام رہا۔ 12۔ جھوک دادو سے حافظ صاحب جامعہ سلفیہ(فیصل آباد) چلے گئے۔وہاں انھوں نے آٹھ نو سال تدریسی فرائض انجام دیے۔ 13۔وقت نے پھر پلٹا کھایا اورجامعہ سلفیہ سے مولانا عبداللہ دیرووالوی کے اصرار پر دوبارہ دارالقرآن والحدیث(فیصل آباد) میں خدمات انجام دینے لگے۔پھر وفات تک وہیں رہے۔ حافظ صاحب منجھے ہوئے مدرس اور صاف کلام خطیب تھے۔کلمہ حق کہنے میں نہایت جری تھے۔اس باب میں کبھی کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوئے۔جس بات کو قرآن وحدیث کے موافق سمجھا اس کا برملا اظہار کیا۔اگر اپنے گاؤں میں ہوتے یا کسی ایسی جگہ خدمت تدریس انجام دیتے جہاں سے گاؤں پہنچنا آسان ہوتا تو خطبہ جمعہ گاؤں جاکر ارشاد فرماتے۔عیدین کی نماز بھی گاؤں میں پڑھاتے۔درس قرآن کا التزام کرتے۔ نماز تراویح میں جتنا قرآن پڑھتے، تراویح ختم ہونے کے بعد اس کا خلاصہ بیان کرتے۔قرآن سے بے حد لگاؤ تھا۔نماز میں نہایت خوش الحانی کے ساتھ قرآن پڑھتے۔عام تلاوت قرآن بھی ٹھہر ٹھہر کر کرتے۔ہر چھوٹی بڑی سنت پر عمل پیرا ہوتے۔فرمان رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہر معاملے میں پیش نگاہ رکھتے۔زیادہ گفتگو سے پرہیز فرماتے۔وہی بات کرتے جو ان کے نزدیک ضروری ہوتی۔طلباء کے سبق میں ناغہ نہ کرتے۔محنت سے مطالعہ کرکے پڑھاتے۔بعض اوقات کسی معاملے میں بہت جلد غصے میں آجاتے۔پھر غصہ جلد ہی ختم بھی ہوجاتا۔ ایک عجیب واقعہ سنیے۔بڈھیمال کے زمانۂ تدریس میں ایک جن حافظ صاحب سے تعلیم حاصل کرتا تھا۔ایک مرتبہ انھیں آشوب چشم کا عارضہ ہوگیا۔ان کے جن شاگرد نے ان کی آنکھوں میں کوئی دواڈالی جس سے تکلیف ختم ہوگئی۔پھر زندگی میں کبھی آنکھ کی تکلیف نہیں ہوئی۔