کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 35
اب حضرت محمد اسحاق صاحب کی دہلی سے ہجرت اور حضرت میاں سید نذیر حسین صاحب کی سند کے بارے میں چند سطور کا مطالعہ کیجیے۔ حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب کی عطا فرمودہ سند شاہ محمد اسحاق صاحب نے 1258ھ میں ہجرت کی اور اسی سال بہ وقت رخصت شیخ الکل میاں صاحب کو ان سے سند واجازہ حدیث کی سعادت حاصل ہوئی۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ شاہ صاحب بہ قصد ہجرت دہلی سے رخصت ہوئے تو ان کی پہلی منزل نظام الدین میں تھی۔تین روز وہاں قیام رہا۔مشایعت کے لیے سینکڑوں لوگ دہلی سے وہاں تک گئے۔مفتی صدر الدین خان آزردہ نے حضرات ثلاثہ(حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب، جناب شاہ رفیع الدین صاحب اور جناب شاہ عبدالقادر صاحب) سے تحصیل علم کی تھی۔حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب کےحلقہ شاگردی میں بھی رہے تھے، لیکن ان میں سے کسی بزرگ سے سند نہیں لے سکے تھے۔ نظام الدین میں مفتی صاحب نے حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب سے سند کے لیے عرض کیا تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔اب مفتی صاحب نے میاں سید نذیر حسین صاحب سے کہا کہ آپ ان سے میرے لیے سند کی درخواست کریں۔نماز ظہر کے بعد میاں صاحب نے شاہ صاحب سے عرض کیا کہ حضور آپ مفتی صدر الدین کو سند عنایت فرمادیں، لیکن حضرت شاہ صاحب نے پھر بھی کوئی جواب نہیں دیا۔دوسرے روز صبح کے بعد پھر میاں صاحب نے عرض کی کہ مفتی صاحب کی کم نصیبی ہے کہ حضرات ثلاثہ سے سند نہ لی، اب حضور بھی تشریف لے جارہے ہیں اور انھیں سند نہ ملی۔ اس پر حضرت شاہ صاحب نےمفتی صاحب کی سند لکھ دی اور میاں صاحب سےفرمایا کہ تم نے بھی تو سند نہیں لی ہے، تم بھی لے لو۔اب حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب نے خود سند تحریر فرماکر میاں صاحب کو عنایت فرمائی۔پھر وہ تمام امور سے کٹ کرتدریس حدیث کی اس خدمت میں مصروف ہوگئے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا فرمایاتھا۔ حضرت شاہ محمداسحاق صاحب نے میاں صاحب کو جو سند عطا فرمائی، اس کے الفاظ یہ ہیں: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم الحمدللّٰه رب العالمين والصلوٰة والسلام علي سيد المرسلين محمد وآله وصحبه اجمعين۔اما بعد فيقول العبد الضعيف محمد اسحاق ان السيد النجيب المولوي محمد نذير حسين قد قرأ علي اطرافاً من الصحاح الستة البخاري ومسلم وابي داؤد الجامع الترمذي والنسائي وابن ماجة وشيئاً من