کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 34
اس کی سماعت کرتے اور اگر کوئی مسئلہ حل طلب ہوتا تو صبح کے درس میں شاہ صاحب سے سوال کرتے اور مسئلہ حل ہوجاتا یعنی کہیں کوئی شبہ پیدا ہوتا تو رفع ہوجاتا۔مولانا عبدالخالق کے حضور قراءت کرتے اور حضرت شاہ صاحب کی جناب میں سماعت فرماتے۔ شاہ صاحب کے درس میں ان کو قراءت کا اتفاق کم ہوا اور سماعت کا زیادہ۔اسی لیے حضرت شاہ صاحب نے ان کی سند میں تحریر فرمایا ہے کہ (سَمِعَ مِنِّي الْاَحَادِيْثَ الْكَثِيْرَةَ) (یہ پوری سند آگے درج کی جائے گی)بہ الفاظ دیگر حضرت میاں صاحب کو صحیح بخاری اور صحیح مسلم پڑھنے کا شرف مولانا عبدالخالق صاحب سے بھی ہوا اور حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب سے بھی۔اول الذکر سے قراءۃ اور ثانی الذکر سے سماعاً۔
شادی
جس زمانے میں میاں صاحب دہلی میں حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب سے کسب فیض کر رہے تھے، اسی زمانے میں ان کی شادی اپنے شفیق استاذ حضرت مولانا سید عبدالخالق صاحب (متولی مسجد اورنگ آبادی) کی صاحبزادی سے ہوئی۔یہ ان کے دہلی کے چھٹے سال 1248ھ (1832ء)کا واقعہ ہے۔ اس شادی کے کفیل خود حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب اور ان کے برادر صغیر شاہ محمد یعقوب تھے نکاح مسجد اکبر آبادی میں ہوا تھا جس میں حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب اور شاہ محمد یعقوب سمیت تمام اساتذہ اور طلبائے علم شریک تھے۔ دونوں شاہ صاحبان تمام رات قرآن مجید اور ابو داؤد شریف کا درس فرماتے رہے۔صبح کو نکاح ہوا اور بعد فراغ دعوت ولیمہ تناول فرما کر اپنے دولت خانہ پر تشریف لے گئے۔
اس شادی کا ذکر مولانا علی احمد صاحب نے بھی اپنے ایک طویل خط میں کیا ہے جو انھوں نے بہ زبان فارسی مولانا حفیظ اللہ خاں صاحب دہلوی کو لکھا۔اس خط کے چند الفاظ ملاحظہ فرمائیے۔
”آناں کہ درشادی کتخدای مولوی صاحب ممدوح باصبیہ عفیفہ حضرت مولوی صاحب مخادامی مولوی عبدالخالق صاحب مرحوم و مغفور شریک بودند، اظہر من الشمس ست کہ حضرت مولانا مبرور(شاہ محمد اسحاق صاحب) ازنماز عشاء تا نماز صبح مع جماعت کثیرہ از علماء و اہل مدرسہ در مسجد قدیم پنجابی کٹرہ رونق افروز بودندومجلسے عجیب بابرکت و میمنت ترتیب یافتہ بود، کاتب خروف نیز دراں مجلس حاضر بود۔“
میاں صاحب کے سوانح نگار مولانا فضل حسین بہاری کے بیان کے مطابق1248ھ کے آغاز( 1833ء)میں میاں صاحب کی شادی ہوئی تھی اوراسی سال کے آخر میں نو دس مہینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بیٹا عطا فرمایا جس کا نام شریف حسین رکھا گیا۔