کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 33
مولوی محمد بخش عرف تربیت خاں اس عہد کے مشہور مہندس تھے۔ حضرت میا ں صاحب نے ان کے سامنے کتب ریاضیہ یعنی خلاصۃ الحساب قوشجی، تشریح الافلاک، شرح چغمنی وغیرہ کتابوں کے لیے زانوےادب تہہ کیے۔ مولانا عبدالقادر رام پوری سے مقامات حریری اور حمیدی پڑھیں اور کچھ حصہ متنبی کا پڑھا۔احادیث کی مختلف کتابوں کا درس بھی ان سے لیا۔ میاں صاحب کے ایک استاد ملا محمد سعید پشاوری تھے۔ لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان سے کس موضوع کی کون کون سی کتابیں پڑھیں۔ مولوی حکیم نیاز احمد سہسوانی بہت بڑے عالم، اپنے زمانے کے عامل بالحدیث بزرگ اور ماہر طب تھے۔میاں صاحب کو ان سے علم طب میں نفیسی اور معقولات میں ملا حسن پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضرت میاں صاحب 13۔رجب1243ھ(30۔جنوری1828ء)کو وارد دہلی ہوئے تھےاور 1246ھ کے آخر(جون1831ء)میں تقریباً ساڑھے تین برس میں تمام علوم رسمیہ سے فارغ ہو گئے تھے اور جو علوم و فنون اس وقت مدارس میں پڑھائے جاتے تھے۔ وہ پڑھ لیے تھے۔ اب انھوں نے پوری توجہ تفسیر و حدیث اور فقہیات کی تحصیل کی طرف مبذول فرمالی تھی۔ حضرت شاہ محمد اسحاق کے حلقہ شاگردی میں پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ میاں صاحب کا دہلی آمد کا اصل مقصد حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب سے تحصیل علم کرنا تھا، لیکن حضرت شاہ صاحب ان کے ورود دہلی سے قبل سفر آخرت پر روانہ ہو چکے تھے اور ان کی جگہ مسند درس پر ان کے لائق ترین نواسے حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب متمکن تھے، جن کے حلقہ درس حدیث کو تمام ہندوستان کے شائقین حدیث کے مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔میاں صاحب نے بھی علوم رسمیہ سے فراغت کے بعد علوم تفسیر و حدیث اور فقہ کی تحصیل کے لیے حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب کے مرکز حدیث کا رخ کیا۔ حضرت شاہ صاحب ممدوح سے میاں صاحب نے صحاح ستہ کی تکمیل کی، نیز تفسیر جلالین، تفسیر بیضادی، کنزالعمال اور حافظ سیوطی کی جامع صغیر کا درس لیا۔ علاوہ ازیں تیرہ برس کی مدت مدید تک ان کی صحبت بابرکت سے مستفیض ہوتےرہے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم پڑھنے کا طریقہ یہ تھا کہ ایک دن پہلے شام کو مولوی برکت اللہ بیگ کے ساتھ مولانا عبدالخالق صاحب سے وہی سبق پڑھ لیتے تھے جو کل صبح کو حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب کے حلقہ درس میں آنے والا تھا۔ اس طرح وہ صبح کو حضرت شاہ صاحب کے درس میں شریک ہو کر