کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 32
حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی نے 7۔شوال 1239ھ(5۔جنوری 1824ء) کو ہفتے کے روز وفات پائی اورمیاں صاحب ان کی وفات سے تین برس نو مہینے پانچ روز بعد دہلی پہنچے یعنی شدید تمنا کے باوجود حضرت شاہ صاحب کے حلقہ شاگردی میں شریک نہ ہو سکے۔ان کی دہلی میں تشریف آوری کے وقت شاہ صاحب کے نواسے حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب ان کی مسند درس پر متمکن تھے اور بہت سے حضرات ان سے مستفید ہو رہے تھے۔ دہلی میں اور بھی حلقہ ہائے تدریس قائم تھے، جہاں حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب کے شاگرد یا ان کے شاگردوں کے شاگردخدمت تدریس انجام دے رہے تھے۔ وروددہلی کے وقت حضرت میاں صاحب کی علمی استعداد بہت کم تھی۔ ہم پہلے پڑھ آئے ہیں کہ انھوں نے قیام پٹنہ کے وقت کتب احادیث میں سےمشکوٰۃ شریف پڑھی تھی اور علم نحو میں ان کی استعداد ہدایۃ النحو تک تھی یا پھر قرآن مجید کا ترجمہ پڑھا تھا۔ یہ محدود علمی قابلیت انھیں براہ راست حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب کے حلقہ درس میں شمولیت سے مانع تھی۔ اس لیے انھوں نے پنجابی کٹرہ کی مسجد اورنگ آبادی کو اپنا مسکن قراردیا۔اس مسجد کے متولی یا منتظم اس وقت مولانا سید عبدالخالق تھے جو شاہ عبدالقادر صاحب اور شاہ محمد اسحاق صاحب کے شاگرد تھے۔ میاں صاحب نے مولانا عبدالخالق صاحب سے حصول علم کا سلسلہ شروع فرمایا اور کافیہ، قطبی، مختصر معانی، شرح وقایہ نورالانوار اور حسامی وغیرہ کتابیں مولانا ممدوح سے پڑھیں۔ اساتذہ کرام مولانا عبدالخالق کے علاوہ میاں صاحب نے مسجد اکبر آبادی میں مندرجہ ذیل اساتذہ کرام سے مندرجہ ذیل کتابوں کی تکمیل فرمائی۔ مولانا اخوند شیر محمد قندھاری سے شافیہ، اصول اکبری، شرح کافیہ ملا جامی مع حاشیہ عبدالغفور، زواہد ثلاثہ، صدرا شمس بازغہ کتابیں پڑھیں۔ مولانا اخوند شیر محمد قندھاری نے1257ھ میں وفات پائی۔ انھوں نےصحیح بخاری اور تفسیر بیضادی کا درس مولانا اسماعیل شہید کی رفاقت میں شاہ عبدالقادر صاحب سے لیا تھا۔ اپنے عہد کے معروف ماہر معقولات جلال الدین ہروی سے میاں صاحب نے شرح سلّم حمد اللہ، قاضی مبارک اور شرح مطالع پڑھیں جو اپنے موضوع کی نہایت اہم اور مشکل ترین کتابیں ہیں۔ مولوی کرامت علی اسرائیلی سے مطول، توضیح تلویح، مسلم الثبوت، تفسیر بیضادی اور تفسیر کشاف(تاسورہ نساء) پڑھیں۔
[1] ۔اس سے غالباً وہی ہم سفر بزرگ مولوی امداد علی صاحب سورج گڑھی مراد ہیں۔ یہاں تک ان کا میاں صاحب کے ساتھ رہنا ثابت ہوتا ہے۔ [2] ۔الحیات بعد الممات ص:30 [3] ۔ملاحظہ ہو الحیات بعد الممات، ص3231۔ [4] ۔سرسید احمد خاں مرحوم مسجد اورنگ آبادی کے متعلق اپنی مشہور کتاب”آثار الصنادید“میں لکھتے ہیں:”پنجابی کٹرہ ایک مکان تھا، مسکن سوداگروں کا اور اس میں اکثر پنجابی سوداگر اتراکرتے تھے، اس نسبت سے پنجابی کٹرہ مشہور ہو گیا ہے۔ اس کٹرہ میں یہ مسجد ہے۔مصفااور دل ربا، نری سنگ مرمر سرخ کی کہ اس کی خوبی اور خوش نمائی بیان سے باہر ہے، اور ایسی نیک نیت بیگم نے بنائی ہے کہ اب تک آباد ہے اور مولوی عبدالخالق صاحب اور مولوی محمد نذیر حسین اسی مسجد میں درس و تدریس فرماتے ہیں اور دن رات قال اللہ وقال الرسول کا ذکر رہتا ہے۔“سرسید کی یہ سطور 1857ء کی جنگ آزادی سے قبل کی رقم کردہ ہیں۔ اس کے بعد تو انگریزوں نے اس خوب صورت مسجد کو مسمار کر کےدہلی کے ریلوے اسٹیشن میں شامل کردیا تھا۔