کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 31
تھے۔[1]شوق کتاب بینی اس وقت زیادہ تھا اور تمھاری طرح غصہ وری اور جلد بازی بھی مجھ میں زیادہ تھی۔ا ب کیاہے۔فقیر ٹھنڈا ہوگیا۔ تم بھی زیادہ عمر پاؤ گے، عیال کا بوجھ زیادہ ہوگا، سب این و آن طاق پر رکھی جائے گی۔“[2]
دہلی میں آمد اور تحصیل علم میں مشغولیت
غرض اس علاقے سے رخصت ہو کر حضرت میاں صاحب آہستہ آہستہ سفر کرتے اور مختلف مقامات میں قیام کرتے ہوئے 13؍رجب 1243ھ مطابق 30۔ جنوری1828ءکو بدھ کے دن دہلی پہنچے۔یہاں یہ یاد رہے کہ وطن سے وہ 1237ھ میں روانہ ہوئے تھے اور دہلی 1243ھ میں پہنچے۔ یہ چھ سال کی مدت بنتی ہے اور یہ بہت بڑی مدت ہے۔ اس کا تذکرہ وہ خود ہی کرتے ہیں۔
دہلی میں وہ سب سے پہلے مولوی محمد شجاع الدین مرحوم مفتی اول کے مکان پر فروکش ہوئے۔
وہاں ان کے ایک ہم وطن پہلے سے اقامت گزیں تھے، اس کا ذکر وہ اپنی ایک تحریر میں فرماتے ہیں۔[3]
”ہم وطن“سے مراد ظاہر ہے کہ مولوی امداد علی صاحب ہیں۔ پندرہ روز میاں صاحب مولوی محمد شجاع الدین صاحب کے مکان پر رہے، اس کے بعد کٹرہ پنجابیاں مسجد اورنگ آبادی میں مولانا عبدالخالق دہلوی (متوفی 1261ھ)کی خدمت میں حاضر ہو کر تحصیل علوم درسیہ میں مشغول ہوگئے۔[4]
چند ضروری باتیں
اب آئندہ سطور میں دہلی میں میاں صاحب کے حصول علم سے متعلق چند ضروری باتیں ملاحظہ فرمائیے۔