کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 30
کے رکن اعلیٰ اور سید احمد شہید کے مرشد تھے۔نہ صرف ہندوستان بلکہ تمام اسلامی ممالک میں ان کی فضیلت علمی کا شہرہ تھا اور ہر جگہ ان کے فیض یا فتگان موجود تھے۔میاں صاحب کا عزم دہلی ہونے کا اصل مقصد حضرت شاہ عبدالعزیزصاحب کے حضور زانوے شاگردی تہ کرنا تھا۔
بہر حال 1237ھ(1822ء)میں میاں صاحب اپنے رفیق سفر امداد علی کی رفاقت میں دہلی کےلیے پٹنہ سے روانہ ہوئے۔وہاں سے چل کر غازی پور پہنچے تو چند روز وہاں قیام کیا اور مولوی احمد علی غازی پور سے بنارس کا عزم کیا۔وہاں بھی کچھ مدت قیام رہا۔بنارس میں نوروپے میں ایک کتاب فروخت کی اور آئندہ سفر کے لیے ایک گھوڑا خریدا۔بنارس سے الٰہ آباد کو روانہ ہوئے۔الٰہ آباد میں دریائے جمنا کے کنارے ایک مسجد میں قیام کیا۔ اس مسجد میں چند روزہ قیام کے بعد دائرہ شاہ محمد اجمل میں فروکش ہوئے۔وہاں مولوی زین العابدین کا سلسلہ درس جاری تھا، میاں صاحب نے صرف ونحو کی کتابیں جن میں مراح الارواح، زنجانی، نقود الصرف، شرح ملۃ عامل، مصباح، ضریری اور ہدیۃ الخو وغیرہ شامل ہیں، وہیں الٰہ آباد کے دوران قیام میں پڑھیں۔
پھر حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے مستفید ہونے کی نیت سے الٰہ آباد سے دہلی کو روانہ ہوئے۔ وہاں سے چل کر موضع”کوڑا“پہنچے جو اعمال ضلع فتح پورمیں واقع ہے۔چلتے پھرتے ضلع کان پور میں وارد ہوئے۔پھرضلع فرخ آباد کا رخ کر لیا۔ غرض اس طرح ادھر اُدھر ہوتے ہواتے دوبارہ ضلع کان پور چلے گئے اور موضوع خواجہ پھول (تھانہ سکندرہ، تحصیل بھوکنی پور)کے قلعے کے اندر آبادی میں قیام فرمایا۔ وہاں ایک بزرگ خواجہ پھول کا مزارہے۔ اس کے قریب والی مسجد میں میاں صاحب ٹھہرے اور جانب جنوب کی دیوار کی جھنجریوں پر اپنے دستخط سے یہ الفاظ تحریر فرمائے۔
”بندہ فقیر امروز وارد مسجد ہذا شد۔ عبدہ سیدمحمد نذیر حسین سورج گڑھی۔ المرقوم فی التاریخ پنجم ماہ رجب المرجب 1238ہجری۔“
میاں صاحب کے ملنے والے ایک صاحب جناب سید عبدالعزیز (ساکن صمدن ضلع فرخ آباد)تھے۔ کسی زمانے میں وہ تحصیل دار ہو کر بھوگنی پورگئے تو مذکورہ بالا تحریر ان کی نظر سے گزری اور اس کی اطلاع انھوں نے میاں صاحب کو دی۔میاں صاحب نے ان کو جواب میں لکھا کہ
”میں بھی ایام طلب علم میں کوڑا ہو کر تمھارے اسی علاقے سے گزرا تھا۔تم نے لکھا ہے کہ”موضع خواجہ پھول کے قلعہ کی مسجد میں کوئی یادداشت ورود فقیر کی بقلم فقیر تحریر ہے، “بے شک ہوگی۔ ذرا اس کو کسی وقت پڑھ کر نقل کر لینا جس سے ماہ وسن وغیرہ دریافت کر لینے سے تم کو انتباہ ہوگا۔میں ایک ٹٹوپر تھا۔ ایک طالب علم بھی میرے ساتھ
[1] ۔الحیات بعدالممات، ص:26