کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 17
علمائے برصغیر پاک و ہند کی خدمات حدیث:
برصغیر پاک وہند کے علمائے اہل حدیث نے علوم نبوت کی ترویج واشاعت اور حفظ وصیانت کے لیے جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔باوجود حجاز مقدس سے علاقائی بعد اور لسانی تفاوت کے اور باوجود نامساعدہ حالات اور تقلید جامد میں جکڑے ہوئے ماحول کے انھوں نے دیارہند میں علوم نبوت کی شمع کو فروزاں کرنے کے لیے تن، دھن قربان کردیا اور مسند علم و فضل اور دعوت وعزیمت کے مقام پر آفتاب بن کر چمکے جس کی ضیاباری سے ایک عالم مستفیض و مستفید ہوا۔ اس حقیقت کا اعتراف عرب علماء نے بھی کھلے دل سے کیا۔ چنانچہ علامہ رشید رضا مصری لکھتے ہیں:
(و لولا عناية إخواننا علماء الهند بعلوم الحديث في هذا العصر لقُضِيَ عليها بالزوال من أمصار الشرق؛ فقد ضعفت في مصر والشام والعراق والحجاز منذ القرن العاشر للهجرة حتى بلغت منتهى الضعف في أوائل هذا القرن الرابع عشر)
(مقدمة مفتاح كنوزالسنة)
(اگرہمارے برادران علمائے اہل حدیث ہند کی توجہ علوم حدیث کی جانب نہ ہوئی تو مشرقی ممالک سے علم حدیث اٹھ چکا ہوتا جیسا کہ دسویں صدی ہجری ہی سے ملک مصر، شام، عراق اور حجاز سے علوم حدیث کا سلسلہ کمزور پڑنا شروع ہوا، یہاں تک کہ چودھویں صدی میں اس کی کمزوری انتہا کو پہنچ گئی۔)
علامہ عبدالعزیز خولی فرماتے ہیں:”عصر حاضر میں ہمارے برادر ہندوستانی علمائے حدیث نے جس قدرعلوم حدیث کا اہتمام کیا ہے باقی اسلامی ممالک میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ان میں حفاظ حدیث بھی ہیں اور اس کی تدریس کا وہی طرز موجود ہے جو تیسری صدی میں اسلاف کا طرز تدریس تھا یعنی آزادی فکر، تحقیق سند کا اہتمام اور اسی طرح عمدہ و قیمتی کتب کی طبا عت وغیرہ(مقدمہ مرعاۃ المفاتیح، ص4)
آج بھی طرز سلف صالحین پر قائم اہل حدیث مدارس اور ان میں محدثانہ طرز علوم نبوت کی تعلیم و تدریس اہل حدیث کے اہتمام میں بعلوم الوحی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
برصغیر پاک و ہندکے علمائے اہل حدیث کی یہی گراں قدر خدمات جو ابھی تک تشنہ تصنیف اور قابل اشاعت تھیں انہی کو خادم العلم والعلماء اور مسلک محدثین کے ترجمان معروف صاحب قلم محترم مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب (متعنا اللّٰه بطول حياته) نے”دبستان حدیث “کے نام سے ایک مبنی