کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 169
میں بگاڑ نہیں پیدا ہونے دیتے تھے۔تفسیر حقانی کے مصنف مولانا عبدالحق صاحب ان کے ہم درس رہ چکے تھے اور ان سے مرشد آباد میں وجوب تقلید کے موضوع پر مناظرہ بھی کیاتھا۔لیکن مولانا ان کو پرانے دوست کے الفاظ سے یاد فرمایا کرتے تھے۔[1] مدرسہ رحمانیہ دہلی برصغیر میں قیام مدارس کے سلسلے میں جماعت اہلحدیث کے خواص وعوام ہمیشہ سرگرم رہے۔ان کی کوششوں سے بے شمار شہروں اور قصبوں میں دینی مدارس جاری ہوئے اور مشہور علماء نے وہاں تدریس کے سلسلے شروع کیے۔دیہات میں بھی لاتعداد درسگاہوں کا قیام عمل میں آیا، جن میں قال اللہ وقال الرسول کی دل نواز صدائیں بلند ہوئیں اور اللہ کے فضل سے اب بھی بلند ہورہی ہیں اور ان شاء اللہ بلند ہوتی رہیں گی۔ دہلی کو اس باب میں بے شبہ مرکزیت حاصل رہی ہے۔یہ شہر ہر زمانے میں جلیل القدر علماء کا محور اور فقید المثال مدرسین کا مسکن رہا ہے۔پرانی تاریخ کوجانے دیجئے، بیسویں صدی عیسوی میں اس شہر میں جن دینی مدارس کا اجراہوا، ان میں مدرسہ رحمانیہ اپنی بہت سی خصوصیات کے اعتبار سے بےحداہمیت رکھتاتھا۔اس مدرسےکے قیام کےاولین مجوز حضرت مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی تھے اوراس کے بانی تھے دہلی کے دومخّیر بھائی شیخ عبدالرحمان اورعطاء الرحمٰن۔حضرت مولانا رحیم آبادی کی دہلی میں آمدورفت رہتی تھی۔جیساکہ گذشتہ صفحات میں وضاحت ہوچکی، مولاناممدوح جہاں جید عالم دین تھے، وہاں اچھے خاصے زمیندار اور دولت مند بھی تھے۔پھر اللہ کی راہ میں مال ودولت خرچ کرنے کاجذبہ صادقہ بھی رکھتے تھے۔ان کے ان اوصاف کی وجہ سے لوگ ان سے بہت متاثر تھے اور ان کی بات مانتے تھے۔شیخ عبدالرحمٰن اورعطاء الرحمٰن تو خاص طور سے ان کے عقیدت مند تھے اور انھیں انتہائی قدرکی نگاہ سے دیکھتےتھے۔ ایک مرتبہ مولانا رحیم آبادی کی دہلی تشریف آوری ہوئی۔شیخ عبدالرحمٰن اور عطاءالرحمٰن کےہاں قیام تھا۔اس وقت ان کی کسی خاتون کوکوئی تکلیف تھی جس کےمتعلق خیال ہوا کہ یہ جناتی اثر ہے۔مولانا کی خدمت میں عرض کیا گیا تو انھوں نے تعویذ دے دیا اور مریضہ صحتیاب ہوگئیں۔؟؟؟ اسی اثناء میں یہ حادثہ پیش آیا کہ شیخ صاحبان کا بھانجا گم ہوگیا۔اسے بہت تلاش کیا گیا اور تلاش پر بڑی رقم بھی خرچ ہوئی، لیکن اس کا پتہ نہ چل سکا۔ایک دن کسی نے اس کو بنگال کے ایک ریلوے اسٹیشن”پار بتی پور“ کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہوئے دیکھا اوراسے پکڑلیا۔شیخ صاحب کو دہلی
[1] ۔ یہاں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی سے سبقت قلم ہوگیا ہے۔علی گڑھ کااجلاس آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کا چوتھا اجلاس تھا، جس کے صدر حضرت مولانا رحیم آبادی تھے اور یہ اجلاس 13، 14، 15، مارچ 1915ء کو ہوا تھا، جب کہ مولانا سلفی نے اوپر کی سطر میں تحریر فرمایا ہے کہ وہ 16۔1917؁ء میں حصول تعلیم کے لیے دہلی گئے تو مولانا کی زیارت کا موقع ملتارہا۔اس حساب سے آخری زیارت علی گڑھ کے اجلاس میں نہیں ہوسکتی، کسی او راجلاس میں ہوئی ہوگی۔ [2] ۔مقدمہ حسن البیان فیما فی سیرۃ النعمان۔مطبوعہ 1961ء۔1385ھ۔اہلحدیث اکادمی۔لاہور، ص:37تا39۔مدراس کا جلسہ آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کا ساتواں سالانہ جلسہ تھا جو مولانا رحیم آبادی کی وفات سے ڈھائی مہینے بعد 3، 4، 5 مئی 1918؁ء کوحضرت حافظ عبداللہ غازی پوری کی صدارت میں منعقد ہواتھا۔اس میں ایک مدراسی لڑکے عبدالعزیز نے جونظم پڑھی تھی، اس کےتین شعر مندرجہ ذیل ہیں۔شعر سن کو لوگوں کی روتےروتے ہچکی بندھ گئی تھی۔مولانا کی وفات کا صدمہ تازہ تھا اور لوگ بہت مغموم تھے۔ شکر خدا کہ جمع ہیں ہندوستان والے علمائے خیر امت شیریں زبان والے جن کے مشاہدہ کو آنکھیں ترس رہی تھیں لو دیکھ لوعزیزو!عز وشان والے کیا خوب ہوتا وہ بھی گرآج زندہ ہوتے عبدالعزیز نامی حسن البیان والے اسی مدرس کے جلسے میں مولوی محمد حسن صاحب کے بیٹے نے ایک فارسی نظم پڑھی تھی، جس کاایک مصرع یہ تھا۔چہ خوش بودے اگرعبدالعزیز ایں جلوہ می دیدے اس پر بھی لوگ تڑپ اٹھے تھے۔(سوانح مولانا رحیم آبادی ص :136)