کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 16
یہ خدمت علوم نبوت کے سلسلے میں وہ سعی مشکور اور عظیم کاوش ہے جس کے بارے میں امام حاکم فرماتے ہیں:
(لَو لَا الْإِسْنَادُ وَطَلَبُ هَذِهِ الطَّائِفَةِ لَهُ وَكَثْرَةُ مُوَاظَبَتِهِمْ عَلَى حِفْظِهِ لَدَرَسَ مَنَارُ الْإِسْلَامِ)
(معرفة علوم الحديث: ص:6)
(اگر سند نہ ہوتی اور اہل حدیث اس کا خصوصی اور باقاعدہ اہتمام نہ کرتے تو آج دین اسلام کا حلیہ بگڑ چکا ہوتا۔)
اور بقول مولانا الطاف حسین حالی رحمۃ اللہ علیہ ؎
گروہ ایک جو یا تھا علم نبی کا
لگایا پتا جس نے ہر مفتری کا
نہ چھوڑا کوئی رخنہ کذب خفی کا
کیا قافیہ تنگ ہر مدعی کا
کیے جرح و تعدیل کے وضع قانون
نہ چلنے دیا کوئی باطل کا افسون
اگر صحیح حدیث کی تعریف پر ہی غور کر لیا جائے تو ان نابغہ روزگار اور عبقری شخصیات کے ذہن رسا اور بالغ نظری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے صدیوں پہلے صحت روایات کے لیے جو معیارمقرر کیا تھا آج تک کوئی شخص کسی بات کو پرکھنے کے لیے اس سے بہتر معیار اور پیمانہ پیش نہیں کر سکا۔انھوں نے صحیح حدیث کے لیے پانچ شرطیں مقرر کیں کہ صحیح حدیث وہ ہے:
(ما اتصل سنده بنقل العدل الضابط عن مثله إلى منتهاه غير معلل ولا شاذ)
یعنی”(1)اتصال سند(2)عدالت(3)ضبط تام(4)عدم علت(5)عدم شذوذ۔“
اس سے بڑھ کر سخت اور کڑا معیار کیا ہو سکتا ہے؟اس لیے جہاں وہ روایت حدیث کی برکات اور اجروثواب کو جانتے تھے وہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان(مَنْ كَذَبَ عَلَىَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ)بھی ان کے پیش نگاہ تھا۔اس لیے انھوں نے حدیث پاک کے تحمل دادا میں انتہائی احتیاط سے کام کیا اور اس ذمہ داری کو بڑی جانفشانی سے نبھایا۔
آج ہمارے پاس تلقی بالقبول کا شرف حاصل کرنے اور علمائے امت سے اصح الکتب بعد کتاب اللہ کا خطاب پانے والی صحیح بخاری، اور امام مسلم کی صحیح مسلم اور دیگر کتب صحاح موجود ہیں تو یہ انہی نفوس قدسیہ کی محنت و کاوش کا ثمرہ اور نتیجہ ہیں۔(جزاهم اللّٰه عنا وعن الاسلام خير الجزاء)