کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 15
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا) (الحجرات:6)
(اے ایمان والو! اگر تمھارے پاس کوئی مجہول العدالت شخص خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو۔)
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم چونکہ بالا تفاق عدول وثقات ہیں اوروحی الٰہی کے اولین شاہد اور روایت حدیث میں حددرجہ محتاط تھے اس لیے ان سے بلا تردو روایات لی جاتی تھیں کیونکہ انھوں نے براہ راست وہ روایات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنیں اور باہتمام ان کو حفظ کیا اور کمال احتیاط اور دیانت و امانت سے آگے پہنچایا۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:”ہم تقریباً ساٹھ آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں احادیث سکھاتے، پھر جب آپ تشریف لے جایا کرتے ہم آپس میں مذاکرہ کیا کرتے تھے اور جب ہم فارغ ہوتے تو وہ احادیث مبارکہ ہمارے دلوں پر نقش ہو چکی تھیں۔“(الفقیہ والمتفقہ)
جب سلسلہ روایت حدیث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے آگے بڑھا تو ساتھ ہی روایت حدیث کے بارے میں تحقیق اور چھان بین شروع ہوگئی: چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
(إِنَّا كُنَّا مَرَّةً إِذَا سَمِعْنَا رَجُلًا يَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللّٰه صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ابْتَدَرَتْهُ أَبْصَارُنَا، وَأَصْغَيْنَا إِلَيْهِ بِآذَانِنَا، فَلَمَّا رَكِبَ النَّاسُ الصَّعْبَ، وَالذَّلُولَ، لَمْ نَأْخُذْ مِنَ النَّاسِ إِلَّا مَا نَعْرِفُ) (مقدمہ صحیح مسلم)
امام محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ(م110ھ)فرماتے ہیں:
(الإِسْنَادُ مِنَ الدِّينِ وَلَوْلاَ الإِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاءَ مَا شَاءَ)
(اسناد دین کا حصہ ہے اور اگر سند کا اہتمام نہ ہو تو جس کے جی میں جوآتا کہتا پھرتا۔) تحقیق سند اور صحت روایت کا اہتمام کرنے کی غرض سے محدثین کرام نے جس قدر محنت اور کاوش کی آج اسماء الرجال اور جرح وتعدیل کی کتابیں اس کی شاہد عدل ہیں۔اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے ڈاکٹر اسپرنگر لکھتا ہے:
”صرف محمد( صلی اللہ علیہ وسلم)کے حالات وواقعات جمع اور فراہم کرنے کے لیے مسلمان مصنفین اور محققین نے پانچ لاکھ آدمیوں کے سوانحی حالات وواقعات مرتب اور مدون کیے۔“
(اسلامی انسائیکلوپیڈیا، ص211)
اسی لیے جب حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ سے موضوع روایات کے خطرات اور اثرات بد کے خدشات کا ذکر کیا گیا تو انھوں نے فرمایا تھا(تَعِيشُ لَهَا الْجَهَابِذَةُ)کہ ماہرین علوم حدیث اس کا سد باب کر لیں گے۔