کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 14
أمر اللّٰه ) ( ترمذي حديث نمبر 2155) (میری امت میں سے ایک گروہ قیامت تک حق پر قائم رہے گا، ان کو پریشان کرنے والے ان کا کچھ نہیں بگاڑسکیں گے۔) امام ترمذی فرماتے ہیں کہ علی ابن مدینی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: (هم أهل الحديث) یہ گروہ(اہل حدیث کا ہے۔) حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:”اہل حدیث ہی طائفہ منصورہ ہے۔اگر حدیث پر عمل کرنے والے طائفہ منصورہ نہیں تو اور کون ہوں گے؟ اور پھر امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل فرماتے ہیں کہ انھوں نے طائفہ منصورہ کے بارے میں فرمایا: (إن لم يكن هم أصحاب الحديث فما أدري من هم) (فتح الباري:1؍85) (اگر یہ لوگ اہل حدیث نہیں تو پھر مجھے نہیں معلوم اہل حدیث کون ہیں؟) علوم نبوت کے وارث محدثین حضرات نے چمنستان حدیث کی رونق بحال رکھنے اور علم حدیث کی شمع کو فروزاں کرنے کے لیے اس دور میں جب وسائل کی کمی تھی اور سہولیات ناپید تھیں علم دین کے حصول کے لیے ہزاروں میل کی مسافتیں طے کیں، انھوں نے لق دوق صحرا، خار دار جنگل اور فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیوں کو سر کیا۔ اگر ان کو معلوم ہوا کہ سمندر پارکسی کے پاس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان موجود ہے تو وہ سمندر کا سینہ چیر کر وہاں تک جا پہنچے اور سند عالی کے حصول کے لیے لمبی لمبی مسافتیں طے کیں، کتب سیرورجال ان قابل رشک لوگوں کے تذکار جمیل اور حسین کار ناموں سے بھری ہوئی ہیں۔ان کا امت مسلمہ پر عظیم احسان ہے کہ انھوں نے صحیح دین امت تک پہنچانے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں اور دنیا کے عیش و آرام کو تج کر جہاں ہزاروں لوگوں کے لیے صراط مستقیم کو واضح کیا اور دنیا میں نسبت حدیث کے شرف عالی سے متعارف ہوئے وہاں اُخروی سعادتوں سے بھی بہرہ ور ہوئے۔ہم تحدیث نعمت کے طور پر کہتے ہیں کہ ہمیں ان کی طرف نسبت پر فخرہے ؎ (أولئك آبائي فجئني بمثلهم **** إذا جمعتنا ياجرير المجامع) امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیم پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ اس نے اس امت کو ”سندجیسی امتیازی خوبی سے نوازا ہے تاکہ صدق و کذب اور حق و باطل میں تمیز ہو سکے۔”سند“ متن کو بیان کرنے والے سلسلۃ رجال کو کہا جاتا ہے۔ محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہم نے قرآنی اصول کو مد نظر رکھا۔