کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 138
ولادت اور ان کے ابتدائی حالات معلوم نہیں ہو سکے۔ البتہ ان کی تاریخ وفات 26۔صفر163ھ(24۔جنوری1750ء)ہے۔ ان کے مفصل حالات میں نے فقہائے ہند جلد پنجم حصہ دوم (چھٹی جلد ) میں لکھے ہیں۔[1]
اسی طرح مولانا ممدوح نے سید عبدالحئی حسنی کو شیخ ابو الحسن سندھی کا ترجمہ لکھنے کا مشورہ بھی دیا ہے۔ان کا ترجمہ میں نے بھی اپنی کتاب فقہائے ہند میں تحریر کیا ہے۔[2]
اب مولانا عظیم آبادی کا ایک اور مکتوب گرامی ملاحظہ کیجیے جو انھوں نے مولانا ثناء اللہ امرتسری کے نام تحریر فرمایا۔مولانا امرتسری کے بقول مولانا عظیم آبادی کے ہاتھ فرمودہ غالباً یہ آخری خط ہے۔اس کا تعلق آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے مالی معاملات اور ڈیانواں میں پھیلے ہوئے شدید مرض طاعون سے ہے۔ یہ خط عزیر صاحب نے اپنی کتاب 31۔مارچ 1911ء کے ہفت روزہ ”اہل حدیث “(امرتسر) سے نقل کیا ہے جو بے حد درد ناک خط ہے۔
از عاجز فقیر محمد شمس الحق عفی عنہ
بخدمت شریف جامع الفضائل مجی مکرمی مولوی ثناء اللہ صاحب دامت برکاتہم
بعد سلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ!
محبت نامہ کارڈ ڈیانواں آکر وصول پایا اور یوم دوم رجسٹری بھی دہلی چاندنی چوک کوٹھی حاجی علی جان مرحوم، مولوی حافظ عبدالغفار صاحب کے پاس روانہ کردیا، اور تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ہم عرصہ سے علیل ہیں اور ضعف غالب ہوا جاتا ہے اور غذا بہت کم۔اس لیے بنظر تبدیل آب و ہوا کے ڈیانواں سے مع سامان سفر کے روانہ ہوئے اور پہلے جبل راجگیر پر اقامت چاہتے تھے۔ پھر بعد یک ماہ کے سفر دہلی وغیرہ کرتے، اسی خیال سے اپنے طالب العلم سب کو بھی رخصت کردیا اور سب کام کو بند کر کے روانہ ہوئے۔ حاجی ذکریا خاں صاحب کا اصرار تھا کہ ملک متوسط کی طرف روانہ ہوں۔اور انھوں نے کوئی دقیقہ اصرار کا اٹھانہیں رکھا۔ مگر چونکہ خیال جبل راجگیر کا تھا، اس لیے ملک متوسط کی طرف نہیں گئے اور راجگیر کی طرف روانہ ہوئے۔مگر عرصہ ایک سال سے اطراف پٹنہ وبہار میں سخت طاعون ہے اور بہت لوگ نقصان ہوئے۔ بعد روانگی میرے معلوم ہوا کہ ڈیانواں میں بھی طاعون آگیا اور بہت زور ہے، مجبور نہایت حیرانی و پریشانی کی حالت میں واپس آئے اور اللہ اللہ علامت(يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ) کی پایا۔ایسا چھوٹا قریہ اور یہ حالت۔اللہ تعالیٰ رحم فرمادے
[1] ۔مولانا عظیم آبادی کے نانا مولانا گوہری علی صدیقی تھے جو پٹنہ کے محلہ رمنہ اور موضوع ڈیانواں کے رئیس تھے۔1213ھ میں پیدا ہوئے اور 11جمادی الاولیٰ 1278ھ (15نومبر1861ء) کو وفات پائی۔ ان کے حالات میں مولانا عظیم آبادی کے ماموں زاد بھائی مولانا محمد زبیر ڈیانوی نے ”یاد گار گوہری“ کے نام سے کتاب تصنیف کی تھی۔ جسے اس خاندان کے حالت سے متعلق ایک مستند ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کتاب میں خود مولا نا کے بارے میں بھی بہت کچھ مرقوم ہے۔ مولانا عظیم آبادی کی وفات سے صرف تین مہینے بعد (1329 ھ) میں مولانا زبیر ڈیانوی وفات پاگئے تھے۔
[2] ۔حضرت عبداللہ غزنوی 1230ھ(1811ء) کو قلعہ بہادر خیل(ضلع غزفی افغانستان) میں پیدا ہوئے اور 15۔ ربیع الاول 1298ھ(15۔فروری 1881ء)کو امرتسر میں فوت ہوئے۔میں نے فقہائے ہند کی جلد 9 میں ان کے تفصیلی حالات لکھے ہیں۔(ملاحظہ ہو صفحہ 147تا 219)فقہائے ہند کی یہ جلد دارالعلوم تقویۃ الاسلام (مدرسہ غزنویہ) لاہور کے نصاب میں بھی شامل رہی۔
[3] ۔ملا حبیب اللہ کا کٹرقندھاری کے حالات میں نے اپنے زمانہ ادارت میں ادارہ ثقافت اسلامیہ کے ترجمان ماہنانہ ”المعارف “بابت ماہ فروری 1984ء میں افغانستان کے ایک فارسی محلے”سائنس“سے اُردو کراکے شائع کیے تھے۔ ملا ممدوح 1213ھ میں پیدا ہوئے اور رمضان المبارک 1265ھ (اگست 1849ء) میں فوت ہوئے۔(ملاحظہ ہو المعارف تاریخ مذکور صفحہ 3تا 22)