کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 124
کی تبلیغ کے لیے انھوں نے نہایت اہم نادر ونایاب کتابیں جمع کیں اور خطیر رقم خرچ کرکے بعض کتابوں کی طباعت کا اہتمام کیا۔اہل علم پر ان کا یہ بہت بڑااحسان ہے۔ بلند اخلاق اوراہل علم کے معاون مولانا سید عبدالحئی حسنی ان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: (كان حليما متواضعا، كريما عفيفا، صاحب صلاح و طريقة ظاهرة، محبا لأهل العلم۔۔۔وكان يحبني للّٰه سبحانه وكنت أحبه، وكانت بيني وبينه من المراسلة ما لم تنقطع إلى يوم وفاته)[1] ”یعنی حلیم الطبع، متواضع، شریف النفس، پاک دامن اورعمدہ اطوار عالم تھے۔اہل علم سے محبت رکھتے تھے۔۔۔مجھ سےاللہ کے لیے محبت کا برتاؤ فرماتے تھے اور میں بھی ان سے محبت کرتا تھا۔میرے اور ان کے درمیان ان کی وفات تک خط وکتابت کا سلسلہ جاری رہا۔“ حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری فرماتے ہیں: اخلاق کی یہ کیفیت تھی کہ کبھی ان کی پیشانی پر بل نہیں دیکھا بلکہ حدیث شریف(تَبَسُّمُكَ فِي وَجْهِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ)پر پورے عامل تھے۔میں نےاس حدیث کے عامل علماء کو کم دیکھا ہے۔[2] نہایت بلنداخلاق، سخی، مہمان نواز، فیاض طبع اور اہل علم کے قدردان تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے گھر عام طور سے علماء وطلباء کا مجمع لگا رہتا تھا۔ان کاکتب خانہ اہل علم کے لیے ہر وقت کھلارہتا تھا۔شائقین علم کو بلاتامل اپنی کتابیں عاریۃً دے دیتے تھے۔بعض اوقات ہدیۃً عنایت فرمادیتے تھے۔شرح بخاری کے ان کے کتب خانے میں کئی نسخے تھے، ان میں سے ایک نسخہ کتب خانہ اصلاح المسلمین پٹنہ کو اور دوسرا مولوی محمد پٹنوی مالک مطبع احمدی کو دے دیا۔ اہل علم کی علمی اعانت کرنا ان کے نزدیک ضروری تھا۔چنانچہ مولانا سید عبدالحئی حسنی نے اپنی کتابوں نزهة الخواطر اور اﻟﺜﻘﺎﻓﺔ اﻹﺳﻼمية ﰲ اﻟﻬﻨﺪ کی ترتیب وتالیف میں ان کے کتب خانے سے بہت مواد حاصل کیا۔دوسروں کی علمی مدد، فروتنی اور تواضع ان کا شیوہ تھا۔بے حد نرم کلام اور
[1] ۔مولانا شمس الحق عظیم آبادی۔حیات اور خدمات، ص :62 بحوالہ ہفت روزہ اہلحدیث امرتسر مورخہ 28اپریل 1911ء۔ [2] ۔نزہۃ الخواطر، ج:8 ص:179