کتاب: دبستان حدیث - صفحہ 11
ایسے عناصر ہر دور میں رسوا ہوئے اس لیے کہ ؎ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا اور چشم کائنات نے دیکھا کہ نور اسلام کو بجھانے اور دین حق کو دبانے کے لیے جس قدر سازشیں ہوئیں یہ اسی قدر نکھرا، چمکااور بھرا۔کیونکہ اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک رکھی ہے کہ یہ اتنا ہی زیادہ ابھرے گا جتناکہ اسے دبایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت اور انبیاء کی میراث کے تحفظ کے لیے جن خدام کتاب و سنت کا انتخاب فرمایا انھوں نے اس منصب جلیل کو اپنی سعادت مندی اور بلند اقبالی خیال کرتے ہوئے اس کارخیر کے لیے اپنا قیمتی سرمایہ حیات و فور شوق سے لٹایا اور علوم نبوت کی خدمت کو اپنے لیے ایک اعزاز اور قابل صد افتخار اور باعث عزت و شرف گردانا۔ اس طائفہ مبارکہ کو”اہل حدیث“، ”محدثین“اور ”طائفہ منصورہ“جیسے مبارک القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔اور دربار رسالت مآب انہی شیدایان قرآن و حدیث کو”ورثۃ الانبیاء“کا قابل فخر لقب عطا ہوا ہے، اور یہی وہ قابل رشک لوگ ہیں جنھیں زبان نبوت سے یہ دعا ملی ہے: (نضَّرَ اللّٰه امرأً سَمعَ منَّا حَديثًا فبلَّغَهُ، فرُبَّ مُبلَّغٍ أَحفَظُ مِن سامِعٍ) [ابن ماجة : 1/85] (اللہ تعالیٰ اس کے چہرےکو پررونق اور شاداب کرے جو ہماری حدیث کو سن کر اسےآگے پہنچاتا ہے۔ بعض اوقات کسی سے سننے والا سنانے والے سے زیادہ یاد رکھنے والا ہوتا ہے۔) یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے علامہ نسوی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب کہا ہے: أهل الحديث هُم أهل النـــــبي وإنْ لم يصحبوا نَفْسَهُ أنفاسهُ صحبوا (اہل حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں، (ان میں سے)جن کو زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میسر نہ آسکی تو اسے آپ کی مبارک سانسوں (حدیث پاک)سے تو شرف صحبت حاصل ہے۔) ہمہ وقت قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں بلند کرنا اور ہر حدیث کی روایت اور تعلیم و تدریس کے دوران بکثرت درود شریف پڑھنا انہی کے حصے میں آیا ہے۔عبدالسلام بن یزید الاشبیلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: