کتاب: شرح لمعۃ الاعتقاد دائمی عقیدہ - صفحہ 17
اس کی اہمیت اور ضرورت کا احساس ہوگا۔ اور میں نے مفتی ابوبکر محمد بن معالی بن غنیمہ کو سنا، آپ فرماتے تھے: میں اپنے زمانے میں امام موفق الدین ابن قدامہ رحمہ اللہ کے سوا کسی شخص کو نہیں پاتا کہ جس نے اجتہاد کے درجہ کو پالیا ہو۔ اسی طرح میں نے حافظ ابوعبداللہ الیونینی کو سنا، کہتے تھے: میں نے ہمارے شیخ اور ہمارے سردار موفق الدین ابن قدامہ رحمہ اللہ کے حالات کو جتنا جانا ہے، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ: بلاشک وشبہ اب تک میں نے جس کسی شخص کو بھی دیکھا ہے، میں اس بات کا اعتقاد رکھتا ہوں کہ علوم میں کمال ان کے علاوہ کسی کو بھی حاصل نہیں ہوا۔ اسی طرح وہ صفاتِ حمیدہ کہ جن کے ساتھ کمال حاصل ہوتا ہے وہ بھی ان کے علاوہ کسی شخص کو ہمارے زمانے میں حاصل نہیں ہوئیں۔
بلاشک وشبہ موفق الدین ابن قدامہ رحمہ اللہ حسن واحسان، بردباری، شان وشوکت والا ہونے، مختلف علوم، اخلاق حمیدہ اور وہ امور جنہیں میں نے ان کے علاوہ کسی اور میں نہیں دیکھا کہ مکمل ہوئے ہوں، ان سب صفات کے مکمل امام تھے۔ میں نے آپ رحمہ اللہ کے کریمانہ اخلاق، حسن معاشرت، انتہا درجہ کی بردباری، کثرت علم، گہری و بے بہا ذہانت، کمال مرو ت، کثرتِ حیاء، بشاشت میں ہمیشگی، دنیا اور دنیا والوں سے علیحدگی وتنہائی، حکومتی مناصب اور حکام سے دوری کا جو مشاہدہ کیا ہے اس سے بڑے بڑے اولیاء وعلماء عاجز تھے۔ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((مَا اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلٰی عَبْدٍ نِعْمَۃً أَفْضَلُ مِنْ أَنْ یُلْہِمَہُ ذِکْرَہُ۔)) ’’اللہ تعالیٰ کسی بندے پر کسی بھی نعمت کا جو انعام کرتا ہے تو وہ انعام اس سے افضل نہیں ہوسکتا کہ ربّ کریم اس کا ذکر (اس کی یاد) لوگوں کے دلوں میں ڈال دے۔‘‘ (الہیثمی نے اسے مجمع الزوائد میں درج کیا ہے: ۴/۴۲۷/ عن ابی ذر رضی اللہ عنہ ۔ الترغیب والترہیب: ۴۴۱۸)
اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ کسی کی یاد کا اللہ عزوجل کی طرف سے دلوں میں ڈالا جانا افضل الکرامات میں سے ہے۔ اور سب سے افضل یاد یہ ہے کہ اس کا نفع بندوں تک در انداز ہوجائے اور وہ ہے؛ قرآن وسنت کی تعلیم۔ اس سے بڑھ کر اور اس سے عمدہ یہ ہے کہ: وہ یاد