کتاب: شرح لمعۃ الاعتقاد دائمی عقیدہ - صفحہ 15
ہمیشہ مغرب وعشاء اور فجر کی سنتیں اپنے گھر میں پڑھتے تھے۔ اسی طرح آپ مغرب وعشاء کے درمیان چار رکعات پڑھتے۔ ان چاروں رکعات میں (جو دو، دو کرکے پڑھی جاتیں) سورۃ السجدۃ، سورۃ یٰسین، سورۃ الدخان اور تبارک الذی پڑھتے۔ ایسا امکان ہی نہیں ہوتا تھا کہ آپ رحمہ اللہ ان میں کوتاہی کریں گے۔ سحری کے وقت بھی آپ تہجد کے لیے کھڑے ہوجاتے۔ بسا اوقات آپ اپنی آواز کو بلند کردیتے۔ آپ کی آواز بہت دلکش تھی۔ ایک بار الملک العزیز بن العادل آپ کی زیارت کے لیے آیا۔ اتفاقاً آپ رحمہ اللہ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے۔ چنانچہ وہ آپ رحمہ اللہ کے قریب بیٹھ گیا اور خاموشی سے بیٹھا رہا حتی کہ آپ نماز سے فارغ ہوگئے۔ اس کے بعد وہ آپ سے ملا۔ اُس نے احتراماً آپ کی نماز میں بالکل خلل اندازی نہ کی۔ سبط ابن الجوزی رحمہ اللہ کا بیان ہے: امام موفق الدین ابن قدامہ رحمہ اللہ عقیدہ وایمان باللہ کے بارے میں شبہ ڈالنے والی باتوں سے بہت ناراض ہوتے۔ آپ بالکل صحیح اور پختہ عقیدے والے تھے۔ ضیاء المقدسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے الحافظ الیونینی رحمہ اللہ سے سنا فرماتے تھے: جب میں حنابلہ کے متعلق اللہ عزوجل کی ذات اقدس وصفات عالیہ کے بارے میں عدم تشبیہ کا سنتا کہ وہ اس کے قائل نہیں ہیں اور لوگ نہایت بھونڈے انداز میں ان پر تنقید کرتے ہیں تو ایک بار میں نے علامہ موفق الدین رحمہ اللہ سے س بارے میں معلوم کرنے کا پورا پختہ ارادہ کرلیا۔ میں کئی مہینے اس حال میں رہا کہ ان سے اس کے متعلق پوچھوں۔ بالآخر صالحیہ محلہ والی جانب میں ان کے ہمراہ جبل قاسیون پر چڑھنے لگا۔ امام رحمہ اللہ کا صالحیہ میں گھر تھا۔ چنانچہ جب میں ابن محارب کے گھر کے قریب پہنچا تو میں نے کہا: یا سیّدی! کسی کو مخاطب کرنے کے لیے اکثر اوقات میں یہ کلمہ استعمال کرتا تھا۔ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’اللہ عزوجل کی صفات میں تشبیہ یکسر باطل اور حقیقت سے ہٹی ہوئی (مستحیل) ہے۔‘‘ میں نے پوچھا: کیوں جی؟ فرمایا: اس لیے کہ تشبیہ کی بنیادی شروط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ مشبہ لہ کو ہم نے دیکھ رکھا ہو پھر ہم اس کی تشبیہ بیان کریں۔ سوال یہ ہے کہ: اللہ تعالیٰ کو کس نے دیکھا ہے جو اس کی تشبیہ بیان کرے؟ امام ابن رجب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: ابن قدامہ رحمہ اللہ دین کے