کتاب: شرح لمعۃ الاعتقاد دائمی عقیدہ - صفحہ 13
آپ اس سفوف کے ساتھ سیاہی کو خشک کرتے۔ اتفاقاً ایک رات آپ کی یہ پگڑی جھپٹا مار کر چھین لی گئی۔ آپ رحمہ اللہ نے چھیننے والے سے کہا: ارے بھائی! آپ پگڑی سے تھیلی نما ورقہ لے لو اور جو کجھ اس میں ہے وہ بھی لے جاؤ، مگر میری پگڑی واپس کردو، اس سے میں اپنا سر ڈھانپ لوں۔ اس تھیلی میں جو کچھ ہے، اس میں تمہیں کھلی چھٹی ہے۔ وہ تمہارے لیے میری طرف سے جائز ومباح ہوا۔ چور یہ سمجھا کہ تھیلی میں ضرور چاندی ہوگی۔ اس نے جب تھیلی کو کافی بھاری پایا تو اس نے اسے لے لیا اور پگڑی واپس کردی۔ چنانچہ اُچکے نے باریک چمڑے سے بنی اس تھیلی کا لینا پگڑی کے بدلے بدرجہا بہتر جانا۔ تو، اس طرح علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے اپنے حسب اسلوب اور نہایت خوش گفتاری سے اپنی پگڑی واپس لے لی۔ ابن النجار کہتے ہیں: علامہ موفق الدین عبداللہ بن احمد ابن قدامہ رحمہ اللہ دمشق کی جامع مسجد میں حنابلہ کے امام تھے۔ آپ رحمہ اللہ نہایت ثقہ وحجت اور معزز وشریف النفس، بے پایاں فضل والے، پاکدامن، متقی وپرہیزگار، سلف صالحین کے منہج وطریق پر نہایت عبادت گزار تھے۔ آپ کے چہرہ پر نور اور اخلاق وچال میں وقار تھا۔ آدمی ان کی بات سننے سے پہلے ان کے دیدار سے ہی فائدہ حاصل کرلیتا تھا۔ عمر بن الحاجب کہتے ہیں: موفق الدین ابن قدامہ رحمہ اللہ امام الائمہ، امت کے مفتی تھے جنہیں اللہ عزوجل نے نہایت وافر فضل سے نواز رکھا تھا۔ نہایت معزز، مکمل علم والے تھے کہ جن کے تذکرہ سے شہروں میں شور مچ گیا تھا اور ابن قدامہ جیسے لوگوں سے زمانے بخیل ہوگئے تھے۔ (صدیوں میں ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ مگر یہ نہایت ہی مبالغہ آرائی ہے۔ انہی ابن قدامہ رحمہ اللہ کی مسند کو سنبھالنے والے امام احمد بن عبدالحلیم ابن تیمیہ رحمہ اللہ ان سے بھی بڑھے ہوئے تھے۔) ان سے نقلی اور عقلی جامع الحقائق لیے گئے ہیں۔ … ابن قدامہ رحمہ اللہ کی تصنیفات بھی بہت ساری ہیں۔ زمانے نے کسی کو بھی شک میں نہیں ڈالا کہ موفق الدین رحمہ اللہ جیسا کوئی شخص فیاض اور فراخ دل ہو۔ آپ رحمہ اللہ نہایت متواضع، حسن اعتقاد (پختہ عقیدہ والے) بردبار وباوقار تھے۔ آپ رحمہ اللہ کی مجلس فقہاء اور محدثین سے پر رہتی تھی۔ آپ رحمہ اللہ بہت زیادہ عبادت