کتاب: شرح لمعۃ الاعتقاد دائمی عقیدہ - صفحہ 11
سے قرأتِ قرآن کی تفقہ حاصل کی حتی کہ اس فن میں اپنے ہم پلہ لوگوں سے فوقیت لے گئے۔ اور پھر موفق الدین ابن قدامہ رحمہ اللہ نے تو فوقیت حاصل کرنے والے ملکہ کو اپنے ہاتھ میں کرلیا۔ حتی کہ مذہب ومسلک اور موقف کی معرفت اور اس کے اُصول آپ رحمہ اللہ پر منتہی ہوگئے۔ اور پھر آپ رحمہ اللہ کے دمشق واپس پلٹ آنے کے بعد ایک مرتبہ پھر بغدد واپس گئے۔ یہ ۵۶۷ھ کی بات ہے۔ اس مرتبہ آپ رحمہ اللہ کے ہمراہ عماد الدین ابواسحاق ابراہیم بن عبدالواحد بن علی المقدسی رحمہ اللہ بھی تھے۔ یہ دونوں بزرگ وہاں ایک سال تک قیام پذیر رہے۔ آپ رحمہ اللہ نے ۵۷۳ھ میں حج کیا اور مکہ مکرمہ کے علماء سے سماعِ حدیث بھی۔
الناصح بن الحنبلی نے بیان کیا ہے کہ: علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے ۵۷۴ھ میں حج کیا تھا اور پھر آپ عراقی وفد کے ہمراہ بغداد آگئے۔ وہاں آپ نے ایک سال تک قیام کیا۔ اس دوران آپ رحمہ اللہ نے اپنے شیخ اور محترم اور استاذ ابوالفتح ابن المنی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیے رکھا۔ پھر آپ رحمہ اللہ دمشق پلٹ آئے اور اپنی کتاب ’’المغنی‘‘ کی تصنیف میں لگ گئے۔
علامہ موفق الدین ابن قدامہ رحمہ اللہ اپنے زمانہ میں ملک شام کے بہت بڑے عالم تھے۔ علوم وفنون میں تبحر وثقاہت کے ساتھ ساتھ آپ رحمہ اللہ نہایت پرہیزگار، عابد وزاہد اور متقی آدمی تھے۔ آپ رحمہ اللہ کے وجود اور چہرے سے ہیبت ووقار چھلکتا تھا۔ آپ کی طبیعت میں بردباری اور اور مؤدت وشفقت تھی۔ آپ رحمہ اللہ کے تمام اوقات علم وعمل میں مستغرق تھے۔ آپ رحمہ اللہ اپنے مد مقابل علماء کو دلائل وبراہین سے لاجواب کردیتے تھے۔ نہ ہی تو آپ دوران گفتگو تنگی وپریشانی سے بچنے کی کوشش کرتے اور نہ ہی گھبراتے تھے۔ جبکہ مد مقابل چیختا چلاتا بھی اور دلائل نہ ہونے کی وجہ سے حسد کی بنا پر جل جاتا۔ الضیاء المقدسی محمد بن عبدالواحد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: موفق الدین ابن قدامہ رحمہ اللہ جس سے بھی مناظرہ کرتے دورانِ مناظرہ آپ مسکراتے رہتے۔
اس پر علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے تعلیقاً لکھا ہے: اس معاملے میں اکثر جو ہم نے مشاہدہ ومعائنہ کیا وہ یہ ہے کہ آپ جب کسی سے بھی مناظرہ کرتے تو اس کے لیے میدان کھلے چھوڑ