کتاب: چہرے اور ہاتھوں کا پردہ - صفحہ 41
امِ خلادکی اس حیاء سے ہمیں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حیاء یاد آگئی، فرماتی ہیں :میں اس کمرہ میں نقاب کے بغیر داخل ہواکرتی تھی،جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورمیرے والد دفن تھے ،اوردل میں سوچا کرتی تھی کہ ایک میراشوہر ہے دوسرا والد ،لہذا پردہ کی کیاضرورت ہے؟مگر جب اسی کمرہ میں عمررضی اللہ عنہ دفن کئے گئے تو ان کی حیاء کی وجہ سے اللہ کی قسم ،میں کبھی بے پردہ اس کمرہ میں داخل نہ ہوئی۔
حیاء کے اس ایمان افروز واقعہ نے ہمیں ایک اور انتہائی سمجھدار اور صالح خاتون تک پہنچا دیا،جن کا اسمِ گرامی فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے ،وہ فرمایا کرتی تھی مردوں کیلئے، عورتوں کے حوالے سے بہتری اورعافیت اسی بات میں ہے کہ مرد کبھی عورتوں کونہ دیکھیں، اور عورتوں کیلئے مردوں کے حوالے سے عافیت اسی بات میں ہے کہ وہ کبھی مردوں کو نہ دیکھیں۔
ایک بار فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اسماء رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا :فوت شدہ عورت کی میت کے حوالے سے مجھے بہت ناگوار محسوس ہوتا ہے ،جب اس کے جسم پر ایسی چادر لپیٹ دی جائے،جس سے اس کے جسم کا نشیب وفراز نمایاں ہو،تواسماءرضی اللہ عنہانے فرمایا:عورت کی میت کے ساتھ،حبشہ میں کیا ہوتا ہے ،آپ کو دکھاؤں؟ چنانچہ اسماء رضی اللہ عنہانے ایک درخت کی چند تازہ شاخیں منگوائیں اور انہیں جسم پر بکھیرا اور پھر اوپر کپڑا ڈال دیا (جس سے جسم کے تمام نشیب وفراز چھپ گئے)فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :یہ عمل کیا ہی عمدہ اورخوبصورت ہے ۔[1]
دینِ اسلام میں عورت کو،مردوں سے ہٹ کربطورِ تحفہ کچھ منفرد احکام حاصل ہوتے ہیں،جن کا مقصد پردہ کی احتیاط اور اس کے جسم کے نشیب وفراز کو مبالغہ کی حد تک ڈھانپنا ہے، چنانچہ ضروری ہے کہ عورت نماز میں قمیض،چادراور دوپٹہ سے اپنے
[1] ابوداؤد : ۵۲۷۲ وغیربہت سے اہلِ علم نے اس حدیث کو حسن قرار دیاہے۔صحیح ابن حبان
[2] الحلیۃ لابی نعیم ۱/۳۱۳، دیکھئے سنن ابی داؤد۱/۳۱۷۔