کتاب: چہرے اور ہاتھوں کا پردہ - صفحہ 38
صفائی اور تقویٰ کے نور سے منور ہوتے)لیکن آج کے دورمیں اگر کوئی شخص خوب صورت ترکی لونڈیاں ،لوگوں کے بیچ ،ان کی خدمت کیلئے چھوڑ دے،جب کہ معلوم ہے کہ حالات کیسے ہیں اور ہمارے علاقوں میں بگاڑ کی کیا صورتِ حال ہے،تو یہ بات بہت بڑے فساد کا موجب ہوگی۔ [1]
شیخ الاسلام مزید فرماتے ہیں: اگر لونڈی کے تعلق سے کسی فتنے کاخوف ہو،تو ضروری ہے کہ وہ بھی چادر اوڑھ کر پردے میں آجائے۔[2]
امام ابن القیم رحمہ اللہ ان لوگوں پر جو قاضی کے اپنے علم کی روشنی میں فیصلہ کرنے کے جواز کے قائل ہیں،رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اگرچہ حاکم کا اپنے علم کی روشنی میں فیصلہ صادر کرنا درست ہے،مگرضروری ہے کہ اس دورکے قاضیوں کو اس سے روکا جائے۔
میری مسلمان بہن!دین اسلام نے غیرت کے تعلق سے جوشعور دیا ہے،اسے انتہائی وسعتِ نظر کے ساتھ دیکھ اور قبول کرلے ۔
بلاشبہ حجاب،ہمارے پروردگار کی شریعت ہے اور اللہ تعالیٰ کے انتہائی قطعی فریضے کے طورپر،تجھ پہ فرض ہے،اللہ تعالیٰ کا یہ فریضہ،کسی دانشورکی ذاتی پسند یاناپسند پر مبنی گفتگوکے تابع نہیں ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی پاکیزہ اورپاکدامن عورتیں،کس تیزی اور مبالغہ کے ساتھ، پردے کے حکم کو قبول کرتی تھیں ،اس حدیث سے ملاحظہ ہو:
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں :اللہ کی قسم!میں نے انصار عورتوں سے زیادہ افضل، کوئی عورت نہیں دیکھی، جب (رات کے وقت)سورۃ النور کی یہ آیت نازل ہوئی:[وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰي جُيُوْبِہِنَّ۰۠ ] (النور:۳۱) یعنی:اپنے