کتاب: چہرے اور ہاتھوں کا پردہ - صفحہ 37
جولوگ خواتین کیلئے چہرہ کھلا رکھنے اور پردہ نہ کرنے کے جواز کافتویٰ دیتے ہیں اگریہ جان لیں کہ یہ فتویٰ دیکر( بلاقصد وارادہ ہی سہی) وہ ملحدین کے دست وبازو بنے ہوئے ہیں اور ان کا یہ فتوی لادینیت پھیلانے والوں کے مقاصد کی تکمیل کیلئے کارآمد ثابت ہورہاہے،تو وہ اپنے اس فتوی سے گریز کرتے ،جبکہ اہل مغرب نے ان کے اس فتویٰ کو ہاتھوں ہاتھ قبول کیا اور ڈوبتے کو تنکے کا سہارہ کے مصداق اسے اخلاقی گراوٹ(یا بربادی) کیلئے تھام لیا۔
اور یہ تو انکا کھویاہوا سرمایہ ہے جسے یہ ڈھونڈ رہے ہیں اور ایسا خار ہے جس میں وہ حجاب کو الجھارہے ہیں تاکہ وہ اس حجاب کے بعد لباس کو عریانی کے ٹکڑوں میں بکھیر کر اڑادیں۔(اور چہرہ کی بے حجابی سے شروع ہوکر رفتہ رفتہ عورت کو نیم برہنہ کرکے چھوڑ دیں،تاکہ فساد اپنی آخری حدود تک پہنچ جائے۔والعیاذ باللہ )
تو اے علماء اسلام ذرا ٹھہرئیے ! کیا فساد وضرر کو ختم نہیں کیاجاتا،بلاشبہ بے پردگی (چہرہ کھولنا) ایک زہرقاتل اور موذی مرض ہے، اور ایک بھوکا حملہ آور بھیڑیا بکریوں کے ریوڑ کو اس کے مالک کیلئے اتنا برباد نہیں کرتا جتناایک ایسے معاشرہ کوجوخواہشات اور نفس کا پجاری ہے ،بے پردگی نقصان پہنچاتی ہے اور یہ ہمارا(پرفتن) دور ہے، آنکھیں کھول کر اس کی خطورت کا اندازہ لگاتے ہوئے،بچاؤکی تدبیریں کیجئے ۔
جب ابن عباس رضی اللہ عنہماکو اپنے متعہ سے متعلق فتویٰ کے بارے میں لوگوں کے توسع کا علم ہوا تو انہوں نے بھری مجلس میں برملا اس کی حرمت کا اعلان کردیا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
صحابہ کے دور میں لونڈیاں کھلے سر راستوں میںچلاکرتی تھیں اور صافی قلب کے ساتھ، مَردوں کی خدمت کیاکرتی تھیں(اور کسی قسم کے فساد کا اندیشہ نہ ہوتا؛کیونکہ دل
[1] روح المعانی۱۱/۸
[2] البحر المحیط۷/۲۴۰
[3] البیھقی الکبری۷/۸۲ ،بیھقی نے اسے صحیح کہا ہے