کتاب: چند بدعات اور ان کا تعارف - صفحہ 94
(۵۵) قبور و مزارات پر گنبد بنانا: [1] یہ بدعت بھی عام ہو چکی ہے۔ بزرگان دین کی قبور پر گنبد تعمیر کرنے والے اپنے برے گمان اور زعم باطل میں یہ تعمیر لائقِ ثواب سمجھتے ہیں چنانچہ مزارات پر گنبدوں کی تعمیر میں خرچ ہونے والی رقم کو یہ لوگ صدقۂ جاریہ سمجھتے ہیں علاوہ ازیں ان کی ایک فکر یہ بھی ہے کہ مزارات پر گنبدوں کی تعمیر سنت ہے اور اس کی دلیل عموماََ یہ دی جاتی ہے کہ اگر مزارات پر گنبد بنانا شرعاََ ممنوع ہے تو پھر روضۂ رسول[2] صلی اللہ علیہ وسلم پر قائم گنبد کیا بدعت کے زمرے میں آتا ہے؟ اور اگر مزارات پر گنبد کی تعمیر بدعت ہے تو پھر اس تعمیر گنبد کو بدعت کہنے والے گنبد خضریٰ پر تنقید کیوں نہیں کرتے؟ اسے گرانے کی مہم کیوں نہیں چلاتے؟ اس قسم کے سوالات وہ لوگ کرتے ہیں جو اپنے آپ کو کہلواتے تو اہل سنت ہیں لیکن درحقیقت وہ اہل بدعت ہیں ۔ 1۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ گنبدِ خضریٰ کی تعمیر خود رسولُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمائی اور نہ ہی اسے خلفائے راشدین یا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے تعمیر کیا۔لہٰذا تعمیر گنبد کو سنت کہنا اور سمجھنا بالکل غلط اور ناجائز ہے۔ 2۔ دوسری بات یہ ہے کہ گنبدخضریٰ مسجد نبوی کا ایک حصہ ہے اور مساجد پر گنبد اور مینا ر بنانا بدعت نہیں کہلاتا۔ 3۔ پھر گنبدِ خضریٰ کی تعمیر میں جو نیت کار فرما تھی وہ بھی یہی تھی کہ مسجد نبوی کو گنبد کے
[1] مرگ واموات اور مقابر پر ایجاد کی گئی بدعات کی تفصیل کیلئے دیکھیئے ہماری کتاب ’’ضمیمہ:توحید سے متعلقہ۔شکوک وشبہات کا ازالہ۔‘‘ مکتبہ کتاب وسنّت،ریحان چیمہ سیالکوٹ وتوحید پبلیکیشنز،بنگلور [2] قبرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عموماً روضہ کہا جاتا ہے جبکہ روضہ ٔ شریف تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر اور منبر کی درمیانی جگہ کو کہا گیا ہے جیسا کہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((مَابَیْنَ بَیْتِیْ وَمِنْبَرِیْ رَوْضَۃٌ مِّنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ)) ’’میرے گھر اور میرے منبر کا درمیانی قطعہ ارضی جنّت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ(روضہ) ہے۔‘‘ (بخاری ۱۱۹۶،۱۸۸۸ مسلم:۹/۱۶۲،ترمذی:۳۹۱۵،۳۹۱۶،مؤطا امام مالک ۱/۱۹۷ عن ابی ہریرہ وعن عبداللہ بن زبیر ۔نیز دیکھییٔ ہماری کتاب ’’سوئے حرم‘‘ مطبوعہ مکتبہ کتاب وسنّت،ریحان چیمہ سیالکوٹ ومکتبہ ترجمان،دہلی۔