کتاب: چند بدعات اور ان کا تعارف - صفحہ 61
میں لپیٹ کر بازو پر باندھا جاتا ہے اور باندھنے والا یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اب فلاں امام اس کا ضامن یعنی رکھوالا اور محافظ ہے۔ امام سے مراد روافض میں امام اول کو لیا جاتا ہے پھر رافضی عقیدے کی رو سے امام اول صرف امام ہی نہیں بلکہ رافضی ٹولے کا مولا یعنی اﷲبھی ہے۔لہٰذا وہ رافضی جو چاہیں اس سلسلہ میں اپنے امام کے ساتھ کریں ہمیں ان سے کوئی سروکار نہیں ہم تو صرف اپنے سنی بھائیوں سے کہیں گے کہ آپ نے کب سے روافض کے عقیدے کے مطابق امام کو ضامن یعنی رکھوالا سمجھنا شروع کردیا ہے؟ جو اپنی اولاد کی رکھوالی نہ کرسکے وہ ہماری تمہاری رکھوالی کیسے کر سکتے ہیں ؟ مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ یہ بدعت صرف جہلاء میں ہی نہیں بلکہ توحید کے نام نہاد علمبردار دیوبندی بھی اس بدعت پر عمل کرتے ہیں اور دیوبند ی مکتبِ فکر کے سرخیل مولانا احتشام الحق (حضرت جی) تھانوی کا صدرایوب خان کو ایئرپورٹ پر بوقتِ روانگیٔ پردیس امام ضامن باندھنا آج بھی تصاویر کی صورت میں اخبارات و رسائل کی فائلوں میں محفوظ ہے حالانکہ یہ شرک ہے کہ اﷲکے ہوتے ہوئے اپنے قرابت داروں، عزیزوں اور دیگر افراد کی رکھوالی ہم اماموں کو دیں ۔ میں اپنے سنی بھائیوں سے یہ امید رکھتا ہوں کہ وہ رافضی مذہب کی ایجاد کردہ اس بدعت سے جلد جان چھڑالیں گے۔ (۲۹) منت کی بالی اور کڑ ے وغیرہ پہننا: بکثرت ایسے لوگ مشاہدے میں آئے ہیں جنہوں نے کان میں بالی اور ہاتھ میں کڑا پہنا ہوا ہوتا ہے۔ جب ان سے اس بالی اور کڑے کی حقیقت معلوم کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ منت کی بالی اور منت کے کڑے ہیں ۔ یہ لوگ ان بالیوں اور کڑوں کو ایک لمحے کیلئے بھی اپنے بدن سے نہیں اتارتے ہیں تاکہ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ بالی یا کڑے کے اترتے ہی یہ مر نہ جائیں کیونکہ اس بالی یا کڑے کے سبب ہی تو پیدا ہونے کے بعد مرنے سے بچے ہوئے ہیں ۔