کتاب: چند بدعات اور ان کا تعارف - صفحہ 48
نام آوری کی غرض سے نکالی گئی ہے۔ اگر مردوں کے لیئے یہ رسومات لازمی ہوتیں تو جناب رسولُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زوجۂ محترمہ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ( رضی اللہ عنہا ) اور اپنی صاحبزادیوں حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہن کا نہ صرف ان کی وفات کے بعد قل اور تیجا فرماتے، بلکہ ساتا، دسواں، چالیسواں یا چہلم اور ہر سال عرس و برسی کا بھی اہتمام فرماتے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رسمیں انجام نہیں دیں ۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام نہیں کیئے تو ہمارے لیئے یہ کام کہاں سے جائز ، لازم اور ثابت ہو گئے؟ آج عالَم یہ ہے کہ اگر کوئی ان جاہلانہ رسوم سے نکلنا چاہے تو خاندان اور برادری والوں کے طعنوں کے ڈر سے نہیں نکلتا کہ لوگ بُرا بھلا کہیں گے جیسے کہ ان رسموں کے چھوڑ دینے والوں کو ان کے بدعتی قرابت داروں اور برادری والوں کی طرف سے کہا جاتا ہے(ان میں بفضل اﷲتعالیٰ میں بھی شامل ہوں جو کہ ترک تقلید و شرک و بدعات کے بعد آج بحمداللّہ اہل حدیث اور موحّد ہوں ) حالانکہ اس معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت اور طعنے وغیرہ سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیئے اور نہ ہی حق پر عمل پیرا ہونے میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنا چاہیئے۔ جب مشرک و بدعتی اﷲکے حضور بدعت کرتے ہوئے نہیں شرماتے تو ہم سنت کے مطابق اﷲکے دین پر عمل پیرا ہونے میں شرمندگی کیوں محسوس کریں ۔ برادرانِ اسلام! یہ رسمیں اسلام اور احکام اسلام کے سراسر مخالف ہیں اور ہنود کی رسومات کے مشابہ ہیں جنہیں مسلمانان بر صغیر نے انکی دیکھا دیکھی میں اختیار کر لیا ہے جو کہ اب مسئلہ سمجھ میں آجانے کے بعد چھوڑ دینے کے قابل ہیں ۔یاد رکھیئے! ہم دین میں اپنی جانب سے نہ کمی کرنے کے مجاز ہیں اور نہ ہی زیادتی کے۔ یہ رسومات دین میں اضافہ ہیں اور بدعت ہیں ۔ اگر آپ قیامت کے دن رسولُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے طلب گار اور حق تعالیٰ کی رحمت کے خواہاں ہیں تو ان بدعات سے اپنا دامن آج ہی چھڑا کر توبہ کرلیں اور اپنے عقائد و اعمال کی اصلاح فرمالیں ۔