کتاب: چند بدعات اور ان کا تعارف - صفحہ 45
اس مقصد عظیم کو تو لوگوں نے پس پشت ڈال دیا ہے اور دوسرے طریقوں سے اس کو استعمال کرنے لگے ہیں ۔ جن میں سر فہرست قرآن خوانی ہے یا پھر قسمیں کھانے، نقشے بنانے، تعویذ گنڈہ کرنے، فالیں نکالنے، دولہا و دلہن کو اس کے نیچے سے گزارنے ، بیماروں کو اس کی ہوا دینے اور مردوں کو بخشوانے وغیرہ کیلئے استعمال کر رہے ہیں ۔ کیا انہی مقاصد کیلئے رب ِعظیم نے اس کتابِ عظیم کونازل فرمایا تھا؟ حاشاو کلاّ ہرگز نہیں بلکہ وہ تو اسی قرآن میں ایک اور جگہ فرمارہا ہے: {وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ} (سورۃ القمر:۱۷،۲۲،۳۲،۴۰) ’’ہم نے قرآن کو سمجھنے کیلئے آسان کردیا پس ہے کوئی اس قرآن سے نصیحت پکڑنے والا‘‘۔ جو لوگ قرآن خوانیوں کے ذریعے مُردے بخشوانے کا منافع بخش کاروبار چلا رہے ہیں ان کی طبع نازک پر میری یہ تحریر یقینا گراں گزرے گی اور ان پر بھی جو لکیر کے فقیر بنے اپنے عزیز واقارب کی اموات اور دیگر تعزیتی مجالس میں قرآن خوانیوں کا اہتمام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید ہم نے اس طرح اپنے مرحومین کا حق ادا کردیا۔ میں انہیں آگاہ کرتا ہوں کہ قرآن خوانی کا موجودہ طریقہ جو مُردے بخشوانے کیلئے رائج کیا گیا ہے۔ یہ اﷲاور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے بالکل خلاف اور سو فیصد بدعت ہے۔ یہ اپنی قرآن خوانیوں کے ذریعے اﷲکا غضب مول لے رہے ہیں، کیونکہ جو عبادت رسولُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، اﷲکے نزدیک وہ عبادت نہیں بلکہ گناہِ عظیم ہے۔ اگر مردوں کے لیئے قرآن خوانی جائز ہے تو پھر رسولُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا اپنی بیٹیوں حضرت زینب, حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہن کیلئے، اپنے محبوب ترین چچا اور رضاعی بھائی سیدالشہداء حضرت امیر حمزہ ر رضی اللہ عنہ وغیرہ کیلئے قرآن خوانی کا اہتمام کیوں نہیں فرمایا؟ اسی طرح خلفائے راشدین کے دور میں جید صحابۂ کرام فوت ہوئے، شہید ہوئے مگر قرآن خوانی