کتاب: چند بدعات اور ان کا تعارف - صفحہ 42
عرس اور میلے جو مزاروں پر منعقد ہوتے ہیں، اسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف ہیں ۔قبروں پر عمارتیں بنانا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ صحیح مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دے کر بھیجا کہ: ’’جو قبراونچی نظر آئے اس کو زمین کے برابر کردو‘‘ ۔ یہ ترجمۂ حدیث کے الفاظ ہیں ۔[1] اسی طرح مسند احمد وغیرہ میں ہے: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی جو قبر پر مسجد بناتے ہیں ۔‘‘[2] یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جو لوگ آج خود کو اہل سنت کہتے ہیں وہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو قابلِ اعتناء لائقِ توجہ ا ور قابل عمل نہیں سمجھتے۔ نہیں معلوم یہ بروز محشر کس منہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جائیں گے اور کس طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے حقدار بن سکیں گے؟ مزاروں پر عرس اور میلے دراصل دور جاہلیت کی رسم ہے جسے شیطان اور اس کے چیلوں نے پھر سے مسلمانوں کے درمیان پھیلادیا ہے۔ عرب علاقے میں جب اس کا بازاردوبارہ گرم ہونے لگا تو شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ کی مساعی جمیلہ نے اس شیطانی کاروبار کو وہاں چلنے نہیں دیا چنانچہ شیطان نے برصغیر، ایران وعراق اور ترکی ومصر وغیرہ میں ان مزارات کی صورت میں اپنے اڈے قائم کر دیئے ہیں ۔ آج بندگان الٰہی اپنے الٰہ حقیقی کی عبادت سے بے خبر شیطان کی راہوں پر چلتے ہوئے قبروں کی پوجا، ان پر سجدے کرنے،
[1] پوری حدیث یہ ہے:((عن ابی ھیان الاسدی قال قال علی:الا ابعثک علٰی ما بعثنی رسول اللّٰہ ﷺ اَلَّا تدع تمثالاً اِلّّاطمّستَہٗ ولا قبراً مشرفاً اِلَّا سویتہ))(صحیح مسلم،مشکوٰۃ:۱۶۹۴) [2] پوری حدیث یہ ہے:((لعن رسول اللّٰہ ﷺ زائرات القبور والمتّخذین علیھا المساجد والسُّرج))(ابوداؤد،ترمذی،نسائی،مسنداحمد،المعجم المفھرس لالفاظ الحدیث ۲/۴۵۱ مادہ سرج)