کتاب: چند بدعات اور ان کا تعارف - صفحہ 105
مردے دفن کیئے جاتے ہیں ۔ لیکن ہمارے نام نہاد اہل سنت حضرات اس معاملہ میں بھی سب سے انوکھے ہیں اپنے پیروں ، ملاّئوں اور صوفیوں کو قبرستان میں دفن کرنے کے بجائے مدارس و مساجد یا گھروں میں دفن کرتے ہیں ۔ اس کی موٹی سی مثال(مولانا) یوسف بنوری کی ہے جن کی قبر بنوری ٹائون میں مسجد کے احاطے میں بنائی گئی ہے۔ علاوہ ازیں (مفتی) محمد شفیع کو ان کے مدرسہ میں دفن کیا گیا۔ قاری مصلح الدین کو کھوڑی گارڈن کی مسجد کے احاطے میں دفن کیاگیا۔ ابھی حال ہی میں مرنے والے ایک عالم عبدالمصطفیٰ ازہری کو دارالعلوم امجدیہ کے احاطے میں دفن کیاگیا۔ جبکہ شریعت میں اس قسم کی کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی کہ عوام کو قبرستان میں دفن کیا جائے اور خواص کو مخصوص مقامات پردفن کیا جائے۔ اسی طرح ایک نام نہاد مفکر اسلام کو بھی اس کے پیروکاروں نے اس کے گھر میں دفن کیا اور اس کی اولاد نے اس کی علّت یہ بتائی کی گھر میں دفن ہونے کے بعد وہ اپنی قبر سے پانچوں وقت کی اذان سن سکے گا۔ میں کہتا ہوں کہ شریعت میں اس امر کی مطلق گنجائش نہیں ہے کہ مردے بجائے قبرستانوں میں دفن ہونے کے مدارس و مساجد اور گھروں میں دفن کیئے جائیں ۔ نام نہاد مفکر اسلام کے چند پیروکار اس کے گھر میں دفن کیئے جانے کو عین سنت قرار دیتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو حجرۂ عائشہ رضی اللہ عنہا میں دفن کیئے گئے جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر تھا۔ میں کہتا ہوں کہ اس امر کی وضاحت حدیث شریف میں ہے کہ نبی جہاں فوت ہوتے ہیں وہیں دفن ہوتے ہیں ۔ لیکن اس امر کی وضاحت کسی بھی حدیث میں نہیں ہے کہ اچھرے کے نام نہاد مفکر اسلام جب مریں تو وہ بھی اپنے حجرے میں دفن ہوں ۔ درحقیقت اس جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی جماعت کے اس بانی کو کسی بھی طرح نبی اور رسول سے کم نہیں سمجھتے ہیں ورنہ اس کو گھر میں نہ دفن کیا جاتا۔بہرحال آمدم برسرمطلب ، مردے کا قبرستان کے علاوہ کسی اور مقام پر بالخصوص مساجد، مدارس اور گھر وں میں دفن کیا جانابدعت ہے۔ اسی سے قبر پرستی کو مزید تقویت ملتی ہے۔ مسلمانان اہل سنت کو اس امرِ قبیح سے باز آجانا چاہیئے۔