کتاب: چند بدعات اور ان کا تعارف - صفحہ 102
کے لیئے جو افعال حق تعالیٰ نے استعمال فرمائے ہیں ان میں ماضی کا صیغہ سبّح اور صیغہ مضارع یسبّح دونوں شامل ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ کی پاکی بیان کرنے کا فعل نہ صرف ماضی میں ہوا بلکہ حال میں بھی ہورہا ہے اور مستقبل میں بھی ہوتا رہے گا اور اس کی کوئی تعداد معین نہیں ہے نہ ہی ادائیگیٔ تسبیح کی کوئی کیفیت قرآن بتاتا ہے اور نہ ہی احادیث سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ اعداد کے لیئے رسولُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے موتیوں کی لڑی کا سہارا لیا ہو اور اسے تسبیح کا آلہ بنایا ہو احادیث میں یہ تو موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو برائے تحمیدِ الٰہی و تکبیر الٰہی ایک تعداد مخصوصہ بتائی لیکن یہ بات احادیث سے ثابت نہیں ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے ان تسبیحات کی ادائیگی کے لیئے موتیوں کی لڑیاں ہاتھوں میں تسبیح بنا کر اٹھائی ہوں اور ان کی مدد سے اپنے رب کی حمدوثناء کی ہو۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے تعداد شمار کرنے کے لیئے کس چیر کا سہارا لیا؟ جواباََ عرض ہے احادیثِ کثیرہ اس پر دلیل ہیں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم انگلیوں پر تسبیحات کا شمار کیا کرتے تھے باوجودیکہ اس دور میں موتیوں کے ہار ملتے تھے مگر کسی بھی صحابی رضی اللہ عنہ نے ہار یا موتیوں کی لڑی کو برائے تسبیح استعمال نہیں کیا کیونکہ یہ اﷲکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ نہیں۔[1]ویسے بھی ہاتھ میں موتیوں کی لڑی لے کر تسبیح پڑھنے میں ریاکاری زیادہ غالب ہوتی ہے اسی لیئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس بدعت سے دوری اختیار کی۔ ہمیں بھی چاہیئے کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح تسبیحٔ انگلیوں پر شمار کیا کریں، مروجہ موتیوں اور قیمتی پتھروں کی تسبیحات ترک کردیں کیونکہ یہ بدعت ہے۔[2]
[1] سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہے کہ ہاتھوں کی انگلیوں اور خاص دائیں ہاتھ کی انگلیوں پر تسبیح کی جائے کیونکہ ابوداؤد کی ایک صحیح حدیث میں ہے:(( یَعْقِدُ التَّسْبِیْحَ بِیَمِیْنِہٖ)) ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں ہاتھ (کی انگلیوں ) پر تسبیح کیا کرتے تھے۔‘‘(دیکھییٔ:الکلم الطیّب ابن تیمیہ بتحقیق البانی ومسنون ذکرِ الٰہی[دعائیں ]ازابوعدنان) [2] ان تسبیح کی لڑیوں اور منکوں کے موجد مسلمان نہیں بلکہ یہودوہنود اور انکے پیشوا لوگ ہیں ۔