کتاب: برھان التفاسیر لإصلاح سلطان التفاسیر - صفحہ 98
سورۂ فاتحہ اور صنعت التفات: پادری صاحب نے سورۂ فاتحہ کی صنعت التفات پر بھی چُبھتا سا اعتراض کیا ہے۔ {اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ} سے {مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ} تک صیغہ غائب ہے۔ {اِیَّاکَ نَعْبُدُ} سے آخر تک صیغہ خطاب ہے۔ اس کو صنعتِ التفات کہتے ہیں۔ عرب کے قصائد میں یہ صنعت بکثرت ہے۔ پادری صاحب نے خود امرأ القیس کے چند اشعار نقل کیے ہیں جو عام طورپر کتب معانی و بیان میں نقل ہوئے ہیں۔ تفسیر بیضاوی میں بھی مذکور ہیں۔[1] شاعر نے ان میں خطاب سے تکلم کی طرف التفات کیاہے۔ عربی کی مثال فارسی میں بھی ملتی ہے۔ شیخ سعدی مرحوم اپنے بادشاہ کے ذکر میں کہتے ہیں: چنیں پادشاہاں کہ دیں پرورند ببازوئے دیں گوے دولت برند از آقاں نہ بینم دریں عہد کس دگر ہست بوبکر سعد ست و بس خدیو خردمند فرخ نہاد کہ شاخ امیدش برومندباد بہشتی درختے تونی اے پادشاہ کہ افگندۂ سایہ یک سالہ راہ[2] (بوستاں باب 1) پہلے تین شعروں میں صیغہ غائب ہے چو تھے میں مخاطب ۔ بالکل سورفاتحہ جیسا، مگر باوجود ا س ثبوت کے پادری صاحب لکھتے ہیں: ’’میں اس کو تسلیم کرتا ہوں کہ عرب کے بعض شاعروں کایہ دستور تھا کہ وہ اپنے اشعار میں کبھی کبھی حاضر کو غائب اور غائب کو حاضر سے خطاب کیا کرتے تھے، جس کو علم ادب کی اصطلاح میں التفات کہتے ہیں۔ لیکن یہ
[1] دیکھیں: تفسیر البیضاوي (1/ 63) [2] ایسے بادشاہ جو دین پرور ہوں دین کی قوت سے گوئے دولت لے جاتے ہیں، اس عہد میں میں کوئی دوسرا نہیں دیکھتا جو ابوبکر ہو، دانا اور مبارک بادشاہ جس کی شاخ امید بار آور رہتی ہے۔ اے بادشاہ! تم بہشت کا وہ درخت ہو جس کا سایہ راستے میں سال بھر رہتا ہے۔