کتاب: برھان التفاسیر لإصلاح سلطان التفاسیر - صفحہ 84
میں داخل کر کے ہمیں پڑھایا۔
اس سے بھی واضح سنیے!
’’عن عقبۃ بن عامر قال: قال (رسول اللّٰه ﷺ) ألا أعلمک سورتین من خیر سورتین قرأ بھما الناس؟ قلت: بلی یا رسول اللّٰه ، فأقرأني {قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} و { قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ}‘‘ (تفسیر ابن کثیر: 4/742)
یعنی عقبہ کہتے ہیں: مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تجھے اچھی دو سورتیں پڑھائوں؟ میں نے عرض کیا: ہاں حضور۔ پس مجھے پڑھائی: {قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} و { قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ}۔
پس ان احادیث مرفوعہ نبویہ علی صاحبھا الصلوۃ والتحیۃ اوراجماع مسلمین میں عبداللہ بن مسعود کا تاویل پذیر قول کسی طرح خلل انداز نہیں ہوسکتا۔ فافہم
نتیجہ صاف اور صحیح ہے کہ قرآن متواتر ہے، ثبوت قطعی یہ ہے کہ دنیا بھر کے حفاظ جمع کرکے ان سے سنیے، زیر، زبر یا جزم پیش کا فرق بھی نہ ہوگا۔ لہ الحمد
ہمارا جواب:
امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے ابن مسعود والی قراء ت کی بحیثیت سند تکذیب کی ہے، حافظ ابن حجر نے اس کی توثیق۔[1] پادری صاحب حافظ ممدوح کی توثیق پر بہت نازاں ہیں، مگر ہم نے جو طریق اختیار کیا اس میں نہ امام رازی کی طرح تکذیب کی ضرورت ہے نہ حافظ موصوف کی توثیق کا ضرر، بلکہ جواب صاف ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سورہ فاتحہ اور معوذتین کا نزول الہامی مانتے ہیں، مگر بطور دعا اور بطور استعاذہ ان کو
[1] دیکھیں: فتح الباري (8/ 743) امام رازی کے علاوہ امام ابن حزم اور امام نووی نے بھی اس بات کی تکذیب کی ہے۔ جبکہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی تصریح کے مطابق یہ روایت صحیح ہے لیکن تاویل صحیح اور اجماع کے ساتھ اس کا جواب ممکن ہے۔