کتاب: برھان التفاسیر لإصلاح سلطان التفاسیر - صفحہ 33
’’ناظرین! پادری صاحب کو سوامی دیانند کی طرح قرآن مجید پر نکتہ چینی کا شوق نہیں شغف ہے، اس لیے آپ بے دردی سے اعتراض کردیتے ہیں، ہم بھی ان کو اس میں معذور جانتے ہیں، بلکہ درخواست کرتے ہیں
تیر پر تیر چلاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے
سینہ کس کا ہے مری جان جگر کس کا ہے‘‘
ایک مقام پر پادری صاحب کے کچھ اعتراضات اور اغلاط کی اصلاح کے بعد فرماتے ہیں:
’’نوٹ: ہم پادری صاحب کی طرح زود رنج نہیں کہ مخاطب کی ذرا سی لغزش پر آپے سے باہر ہوجائیں اور کہہ دیں کہ ہمارے قابل التفات نہیں۔ (النجات: 15 ؍ اکتوبر 34ء ، ص : 2) نہ ہم قادیانیوں کی طرح ہیں کہ پادری سلطان محمد صاحب کی غلطیوں پر ان کو مرتد، جاہل جیسے مکروہ الفاظ سے یاد کریں۔ (الفضل : 15 ؍ اگست 31ء ) بلکہ ہمارا وہی اصول ہے جو ہر اہل علم کا ہے: ’’لکل جواد کبوۃ، ولکل عالم ھفوۃ‘‘ (ہر گھوڑا گرتا ہے اور ہر عالم بھولتا ہے)۔‘‘ (برہان، ص: 367)
مولانا کی یہ روش برہان التفاسیر کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ آپ کی تمام تحریریں اسی وقار وشائستگی اور اعتدال وتوازن کا آئینہ ہیں۔ افسوس کہ آج یہ روش نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے، بحث ومباحثہ تحریری ہو یا تقریری، اپنوں سے ہو یا غیروں سے، ارباب زبان وقلم بڑی جلدی جذبات سے مغلوب ہوجاتے ہیں اور غیر شریفانہ لب ولہجہ اختیار کر بیٹھتے ہیں، نوجوان نسل کی رگ حمیت خاص طور سے ذرا جلدی پھڑکتی ہے اور اگر خاطر خواہ تربیت سے آراستہ نہ ہو تو اشتعال میں آکر اس سے گفتار وکردار کے ایسے نمونے سامنے آتے ہیں جن میں اسلام اور اہل اسلام کی بدنامی