کتاب: برھان التفاسیر لإصلاح سلطان التفاسیر - صفحہ 32
کے جواب کو متضمن ہوتا ، اس لیے اسی پر اکتفا کرتے۔
کتاب کے قارئین دیکھیں گے کہ مولانا نے جواب نویسی میں تفسیر، اصول تفسیر ، علوم القرآن، حدیث، اصول حدیث، ادب، بلاغت، نحو وصرف اور دیگر فنون کی کتابوں سے جابجا استناد کیا ہے، اس کے علاوہ مختلف فرق ضالہ جدیدہ کے لٹریچر اور مروجہ توریت وانجیل کے مشتملات پر مولانا کی گہری نظر کا بھی یہ کتاب منہ بولتا ثبوت ہے۔ اردو کے ساتھ عربی وفارسی اشعار وامثال کے برمحل استعمال پر بھی مولانا کو خوب قدرت حاصل ہے، چونکہ مقابل میں ایک عیسائی مصنف ہے اور اس نے جابجا انجیل کو درست وبرتر اور قرآن کو غلط اور کم تر ثابت کرنے کی ناروا کوشش کی ہے اس لیے مولانا معترض کے اعتراض کے قرآن پر عدم انطباق کو ثابت کرتے ہوئے اسے انجیل پرمنطبق کردیتے ہیں اور انجیل کے مختلف مقامات کی عبارتیں نقل کرکے وہی اعتراض اس پر چسپاں کرتے ہوئے گنگناتے ہیں کہ ’’ایں گنا ہیست کہ در شہر شما خاص کنند‘‘۔
ابطال وتردید کے موضوع میں عام طور سے دیکھا جاتا ہے کہ جواب دہندہ سے متانت وسنجیدگی اور وقار کا دامن چھوٹ جاتا ہے اور وہ معترض کے لب ولہجے اور تیز وتند حملے سے مشتعل ہوکر بسا اوقات غیر مہذب اور ناشائستہ الفاظ واسالیب کا استعمال شروع کردیتا ہے، اور کبھی کبھی تو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی کوشش میں حد درجہ سطحیت پر اتر جاتا ہے، لیکن مولانا امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کی طویل دفاعی خدمات میں ایسی کوئی چیز نہیں نظر آتی، چاہے ان کی تحریر ہو یا تقریر، مناظرہ ہو یا مباحثہ، اسلامی فرقوں سے ہو یا اعدائے اسلام سے ، ہر جگہ وہ پوری متانت، وقار اور شائستگی کا پیکر نظر آتے ہیں۔ فریق مخالف کی سخت سے سخت گفتگو سننے کا حوصلہ اور برداشت کرنے کا سلیقہ آپ کے خصوصی اوصاف میں سے ہے۔
زیر مطالعہ کتاب کے صفحہ (248) پر مولانا کی یہ تحریر ملاحظہ فرمائیں: