کتاب: برھان التفاسیر لإصلاح سلطان التفاسیر - صفحہ 30
تحریر ہے۔ یہ تحریر سلطان محمد (پال) عیسائی پادری کی تحریر کا جواب ہے۔ سلطان صاحب نے اسلام ترک کرکے عیسائیت کے دامن میں پناہ لی تھی، انھوں نے حالت اسلام میں عربی اسلامی تعلیم حاصل کی تھی اور اسلامی مآخذ پر ان کی نظر تھی، اس علم دانی کے زعم میں انھوں نے قرآن کی ایک تفسیر بنام ’’سلطان التفاسیر‘‘ لکھنے کا پروگرام بنایا۔ ایک مرتد عن الاسلام قرآن کی تفسیر کیوں کر لکھے گا؟ قرآن کی خدمت اور قرآنی تعلیمات سے لوگوں کو واقف کرانے کے لیے، یا اس کی آڑ میں قرآن کو نشانہ بنانے اور اس میں شکوک وشبہات تلاش کرنے کے لیے؟ اسے بتانے کی ضرورت نہیں۔ مولانا امرتسری رحمۃ اللہ علیہ جنہوں نے ہر باطل کی تردید اور بیخ کنی گویا اپنا مشن بنا لیا تھا وہ کلام الٰہی پر ہونے والے اس منصوبہ بند حملے پر کیسے خاموش رہ سکتے تھے؟ فوراً انھوں نے اس نام نہاد تفسیر کے تعاقب کا پروگرام بنا لیا۔ آپ 6 ؍ مئی 1932؁ کے ’’اہل حدیث ‘‘ کے شمارے میں لکھتے ہیں: ’’ سلطان التفاسیر بصورت رسالہ المائدہ جنوری 32؁ سے جاری ہے، ہمارے دل میں اسی وقت سے جواب دینے کا القا ہوا تھا، لیکن اتنے دنوں تک ہم نے انتظار کیا کہ رسالہ مذکورہ کے چند نمبر نکل لیں تو توجہ کی جاوے گی ، چنانچہ آج سلسلہ ہذا کا نمبر اول ہے، آئندہ حسب تجویز ایک صفحہ اخبار (اہل حدیث ) اس سلسلہ کے لیے وقف کیا جائے گا ، اس کا نام یہی ہوگا: ’’برہان التفاسیر برائے اصلاح سلطان التفاسیر ‘‘ ۔ (برہان، ص: 76) ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’ چونکہ پادری صاحب نے ایک ماہوار عیسائی رسالہ ’’ المائدہ ‘‘ کی معرفت تھوڑا تھوڑا حصہ تفسیر کا شائع کرنا شروع کیا تھا جس کی وجہ سے خیال ہوا کہ اگر اس تفسیر کے خاتمہ تک جنبش قلم کو بند رکھا جائے تو اتنے عرصہ تک زندگی کا کیا اعتبار؟ نیز اتنا بڑا کام دفعتاً کرنا محال ہوگا، اس