کتاب: برھان التفاسیر لإصلاح سلطان التفاسیر - صفحہ 29
پیش لفظ برصغیرہند میں گزشتہ صدی میں جن شخصیتوں نے ہمہ جہت اسلامی خدمات انجام دیں ان میں شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ (1868 - 1948 ء ) کا نام سرفہرست ہے۔ مولانانے درس وتدریس، تصنیف وتالیف ، تقریر ومناظرہ ، صحافت، انجمنوں اور تنظیموں کی تشکیل اور دیگر رائج الوقت وسائل واسالیب کے ذریعہ اسلام اور اسلامی شریعت کی ایسی خدمت کی جس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ یہ محض عقیدت یا جذبات کی بات نہیں ہے بلکہ مولانا کی حیات وخدمات پر نظر رکھنے والے اور ان کے چھوڑے ہوئے علمی ورثہ کی جانکاری رکھنے والے اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ آپ نے جس عہد میں آنکھیں کھولیں وہ مغربی استعمار کا عہد تھا۔ مسلمانوں کی نہ صرف سیاسی اور حکومتی زوال وانحطاط کا زمانہ تھا بلکہ دینی ومذہبی اعتبار سے بھی مسلمان خطرات سے گھرے ہوئے تھے۔ عیسائیوں ، آریوں، قادیانیوں، نیچریوں، حدیث کے انکاریوں اور دیگر تحریکات باطلہ سے وابستہ اشخاص نے اسلام اور مسلمانوں کو ہدف تنقید بنا رکھا تھا۔ ایسے نازک وقت میں اسلام کے سپاہی بن کر مولانا میدان میں اترے، اور جملہ اعدائے اسلام کے لیے شمشیر بے نیام ثابت ہوئے۔ اللہ تعالی نے آپ کو کتاب وسنت کے ٹھوس علم کے ساتھ حکمت وبصیرت اور ایسی فراست سے نوازا تھا کہ مخالفین اسلام وسنت کے مشکل سے مشکل سوالات واعتراضات کا فی الفور معقول ومؤثر جواب دیتے کہ مخالف بغلیں جھانکنے لگتا۔ زیر نظر کتاب مولانا کے دفاع عن القرآن کے سلسلے کی ایک کڑی ہے، جو اصل میں مولانا کے مجلہ ’’اہل حدیث‘‘ امرتسر میں شائع اکیاسی (81) قسطوں پر مشتمل