کتاب: برھان التفاسیر لإصلاح سلطان التفاسیر - صفحہ 24
علامہ شورش کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’آپ فاتح قادیان تھے۔‘‘ مولانا ظفر علی خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’آپ پر حاضر جوابی ختم تھی۔‘‘(سیرت ثنائی، ص: 18) اور مولانا ابو علی اثری (رفیق دار المصنفین اعظم گڑھ) شیخ الاسلام مولانا امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’ان (مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ ) کا کوئی حریف ہی نہیں تھا۔ انھوں نے آریوں سے بڑے معرکے، مناظرے کیے اور ہمیشہ کامیابی کا سہرا ان کے سر رہا، آریوں کے پیہم مقابلہ و مناظرہ ہی کی وجہ سے وہ ’’شیر پنجاب‘‘ کے پر ہیبت نام سے مشہور ہو چکے تھے اور واحد مناظر اسلام کی حیثیت سے ملک کے ہر حصے میں جاتے تھے اور آریوں کے اپدیشکوں کا نہتا مقابلہ کرتے تھے اور کامیاب لوٹتے تھے۔‘‘(تذکرہ ابو الوفائ، ص: 8) مؤرخ اہلحدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی حفظہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وہ (مولانا ثناء اﷲ رحمۃ اللہ علیہ ) بہترین مقرر بھی تھا اور بلند پایۂ مناظر بھی، دینی علوم کے ماہر بھی اور غیر اسلامی ادیان سے باخبر بھی، مصنف بھی تھے اور محقق بھی، مفسر بھی تھے اور ماہر حدیث بھی، اصولی بھی تھے اور عالم فقہ بھی، کلامی بھی تھے اور فلسفی و منطقی بھی، اور اپنے خاص انداز میں سیاست میں بھی حصہ لیتے تھے اور ملکی مسائل سے بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے۔‘‘(بزم ارجمنداں، ص: 143) اور یہ حقیقت ہے کہ ایسی یکتائے روز گار اور عبقری شخصیات صدیوں بعد ہی پیدا ہوتی ہیں