کتاب: برھان التفاسیر لإصلاح سلطان التفاسیر - صفحہ 21
جب بھی کسی نے قرآن کریم یا حدیثِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض یا تنقید کی اور لوگوں کو وحی الٰہی کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کرنا چاہا تو اس کی یہ مذموم حرکت تُف بسوئے فلک بروئے تو است[1] کے مترادف ثابت ہوئی۔ اﷲ تعالیٰ نے دین حق کی حفاظت کے لیے ہر دور میں ایسی نابغۂ روزگار اور عبقری شخصیات کو پیدا کیا ہے جنھوں نے دفاعِ کتاب و سنت کے عظیم جہاد کو اپنا مقصدِ حیات بنا کر اس راہ میں اپنی زندگیاں وقف کر دیں اور حفاظتِ دین حق کے لیے اﷲ تعالیٰ کے منتخب کردہ گروہِ سعید اور بلند اقبال جماعت میں شامل ہونے کی ابدی سعادت حاصل کی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: { ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا} [الفاطر: 32] ’’پھر ہم نے اس کتاب کے وارث اپنے وہ بندے بنائے جنھیں ہم نے چن لیا۔‘‘ این سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ ماضی قریب میں خدامِ دین حنیف کی اس سعادت مند جماعت کی نامور شخصیت کہ جنھوں نے مخالفینِ اسلام اور گمراہ فرقوں کا ہر محاذ پر ڈٹ کر مقابلہ کیا اور تقریر و تحریر اور بحث و مناظرہ کے ذریعہ احقاق حق اور ابطال باطل کی ذمہ داری کو بڑی حسن و خوبی اور عمدگی کے ساتھ سر انجام دیا۔ اور ان کے معاصرین نے انھیں ’’شیخ الاسلام، شیر پنجاب اور فاتح قادیان‘‘ جیسے القاب سے نوازا، شیخ الاسلام ابو الوفائ، امام المناظرین مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے انھیں بے پناہ
[1] یعنی آفتاب پر تھوکنے والے کی تھوک اسی کے منحوس چہرے پر گرتی ہے۔