کتاب: برھان التفاسیر لإصلاح سلطان التفاسیر - صفحہ 142
یہی ذہن نشین کرایا گیا ہے کہ سلطان التفاسیر میں سوائے احادیث اور اقوال مسلم مفسرین کے کچھ بھی نہیں۔ پھر جواب کیسا؟
واقعی اگر یہ زعم صحیح ہوتا تو ہم بھی آپ کے ہم خیال ہوتے کہ جواب کی ضرورت نہیں۔ لیکن آپ کی واقفیت کا حال یہ ہے کہ آپ خود ہی لکھتے ہیں:
’’ہم افسوس کرتے ہیں کہ آپ (مولوی ثناء اللہ) کی برہان التفاسیر کا دیدار ابھی نصیب نہیں ہوا۔‘‘ (حوالہ مذکور)
اصل وجہ ہی یہ ہے کہ آپ نے جواب نہیں دیکھا اس لیے بحکم مثل مشہور ’’مَنْ جَھِلَ شَیْئاً عَادَاہُ‘‘[1]مخالفت کرتے ہیں۔
ان عالمانہ شہادتوں کو دیکھ کر پادری صاحب کو ایک بڑے فلاسفر کا قول سناتے ہیں۔
صائب دو چیز مے شکند قدر شعر را
تعریف ناشناس و سکوتِ قدر شناس[2]
نوٹ: گزشتہ پرچہ میں نقل ہوا ہے کہ پادری صاحب نے لکھا ہے کہ سارا قرآن ہدایت نہیں، کیونکہ اس میں محکم کے ساتھ متشابہ بھی ہیں۔ اس کے جواب میں ہم ڈنکے کی چوٹ سے کہتے ہیں قرآن سارے کا سارا ہدایت ہے، مفصل ہو خواہ مجمل، محکم ہو یا متشابہ، ان اقسام میں سے کوئی بھی ہدایت سے خالی نہیں۔ یہاں ہمارا یقین نہ ہو تو آگے محکمات اور متشابہات کے موقع پر ہم بتادیں گے۔
حضرت علی کا قول (بعد ثبوت بسند صحیح)[3] اپنے اندر بڑی حکمت رکھتا ہے، ہم دیکھتے ہیں
[1] جو کسی چیز سے ناواقف ہوتا ہے اس کا دشمن بن جاتا ہے۔
[2] صائب! دو چیزیں شعر کی قدر ختم کر دیتی ہیں: ناشناس کی تعریف اور قدر شناس کی خاموشی۔
[3] الدر المنثور للسیوطي (1/ 40) اس کی سند میں عمران بن مناح راوی کا ترجمہ نہیں ملا۔ نیز اسے حافظ خطیب بغدادی نے الفقیہ والمتفقہ (1/ 560) میں روایت کیاہے لیکن اس کی سند میں یحییٰ بن عبداﷲ بابلتی اور حسن سمسار ضعیف ہیں۔