کتاب: بیماریاں اور ان کا علاج مع طب نبوی - صفحہ 35
کرنا جائز ہے ۔ اس لئے کہ قرآن مجید (البقرہ 2 : آیت 222) میں طہارت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا اطلاق دونوں حالتوں (حیض و نفاس) پر ہوتا ہے۔(سنن اربعہ) لیکن غسل کے بعد جماع کرنا زیادہ افضل ہے (مؤطا امام مالک) ’’ایام حیض گزر جانے کے بعد نہانے سے پہلے عورت سے صحبت کی جاسکتی ہے ۔ لیکن غسل کے بعد ہم بستری زیادہ بہتر ہے۔‘‘ (امام غزالی ) ﴿ نوٹ : حالت حیض ونفاس میں جماع کرنا، عورت کی دبر میں جماع کرنا، زناکرنا، لڑکوں سے جماع کرنا، جیسی بد اعمالیوں کے نتیجہ میں امراض خبیثہ ، سوزاک، آتشک اور ایڈز لاحق ہوجاتے ہیں جن کا خمیازہ پوری زندگی بھگتنا پڑتا ہیبلکہ اولاد پر بھی اس کابرا اثر پڑتا ہے۔ اولاد معذوریا کوڑھی ہوسکتی ہے﴾
10. خلافِ فطرت عمل کی ممانعت :۔ جس طرح حالت حیض میں بیوی سے صحبت حرام ہے (البقرہ2:آیت222) اسی طرح بیوی کی دبر (پاخانہ کا مقام) میں عضو تناسل داخل کرنا بھی حرام ہے اور یہ انتہائی گندہ فعل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :۔ ’’عورتوں کے پچھلے حصہ میں جماع نہ کرو۔ جو لوگ اپنی بیویوں کے پچھلے حصہ میں جماع کرتے ہیں وہ ملعون ہیں‘‘(ترمذی،ابو داؤد) جو شخص اپنی بیوی کے دبر میں جماع کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو نظرِ کرم سے نہ دیکھیں گے ﴿وضا حت : اس عمل میں عورت کو ہمیشہ تکلیف ہوتی ہے اور میاں بیوی دونوں کو جنسی بیماریاں لگنے کا خطرہ ہے﴾
11.جماع کا فطری طریقہ یہ ہے کہ عورت نیچے ہو اور مرد اوپر رہے۔ ذیل کی آیت میں بھی یہی طریقہ نہایت لطیف اشارہ میں بیان کیا گیا ہے ۔ (ترجمہ) ’’جب مرد نے عورت کو ڈھانپ لیا تو اس کو ہلکا سا حمل رہ گیا۔‘‘ (الا عراف 7 : آیت 189) جماع کی بری شکل یہ ہے کہ عورت مرد کے اوپر ہو اور مرد نیچے چت لیٹا ہو۔
12. ٓآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میاں بیوی کی خلوت کی باتیں دوست، احباب اور سہیلیوں سے بیان کرنے کو منع فرمایا ہے (مسلم)
13. کوئی شخص اپنی بیوی سے جماع کرے اور پھر دوبارہ جماع کرنا چاہے تو اسے چاہئے کہ درمیان میں وضو کرے‘‘(ابو داؤد)