کتاب: بدعات سنت کے میزان میں - صفحہ 87
یہ فتوی اسلامی شریعت کے مطابق ہر گز نہیں ہے، یہ صاحب فتوی کی خطا ہے۔ 3.ایک کتاب میں لکھا ہے : إِنْ أَوْصَی الذِّمِّيُّ لِلْبِیعَۃِ أَوْ لِلْکَنِیسَۃِ، أَنْ یُّنْفَقَ عَلَیْہَا فِي إصْلَاحِہَا، أَوْ أَوْصٰی أَنْ یُّبْنٰی بِمَالِہٖ بِیعَۃٌ، أَوْ کَنِیسَۃٌ، أَوْ بَیْتُ نَارٍ، أَوْ أَوْصٰی بِأَنْ یُّذْبَحَ لِعِیدِہِمْ، أَوْ لِلْبِیعَۃِ، أَوْ لِبَیْتِ نَارِہِمْ ذَبِیحَۃٌ، جَازَ فِي قَوْلِ أَبِي حَنِیفَۃَ، وَلَمْ یَجُزْ شَيْئٌ مِّنْہُ فِي قَوْلِ أَبِي یُوسُفَ وَمُحَمَّدٍ ۔ ’’اگر ذمی وصیت کرے کہ کلیسے یا گرجے کی مرمت کے لیے مال خرچ کیا جائے، یا وصیت کر ے کہ اس کے مال سے کلیسہ،گرجہ یا آتش کدہ بنایا جائے، یا وصیت کرے کہ ذمیوں کی عید کے موقع پر یا ان کے کلیسہ کے لیے یا ان کے آتش کدے کے لیے جانور ذبح کیا جائے تو امام ابو حنیفہ کے مطابق یہ کام جائز ہے،جبکہ قاضی ابو یوسف اور محمدبن حسن شیبانی نے اس میں سے کسی کام کو بھی جائز قرار نہیں دیا۔‘‘ (المَبسوط للسّرخسي : 28/94) کلیسا، گرجا گھر اور آتش کدہ مرمت کرنا بالکل بھی جائز نہیں ہے،اسی طرح آتش کدوں کے لئے جانور ذبح کرنا بھی شریعت کے مزاج کے خلافہے ۔ 4.مفتی احمد یا صاحب لکھتے ہیں : ’’دیکھیے جانور پالنے والا کافر ہے اور ذبح بھی کراتا ہے، بت یا آگ کی