کتاب: بدعات سنت کے میزان میں - صفحہ 85
لِأَحَدِہِمْ : قَرِّبْ شَیْئًا، قَالَ : مَا مَعِيَ شَيْئٌ، قَالُوا : قَرِّبْ وَلَوْ ذُبَابًا، فَقَرَّبَ ذُبَابًا وَمَضٰی فَدَخَلَ النَّارَ، وَقَالُوا لِلْآخَرِ : قَرِّبْ شَیْئًا، قَالَ : مَا کُنْتُ لِأُقَرِّبَ لِأَحَدٍ دُونَ اللّٰہِ فَقَتَلُوہُ فَدَخَلَ الْجَنَّۃَ ۔ ’’ایک مکھی کی وجہ سے ایک شخص جنت میں داخل ہوا اور دوسرا جہنم میں ، لوگوں نے عرض کیا : وہ کیسے؟ فرمایا : پچھلی امتوں میں دو آدمی سفر پر جا رہے تھے کہ راستے میں چند لوگوں کو دیکھا ایک بت کی پوجا کر رہے ہیں اور شرط لگا رکھی ہے کہ یہاں سے وہی گزر پائے گا، جو اس بت پر چڑھاوا دے گا، ایک شخص سے کہا چڑھا وا دو ،کہنے لگا : میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ، کہنے لگے : چڑھاوا ضرور دو، بھلے ایک مکھی ہی کیوں نہ ہو، اس نے ایک مکھی کا چڑھاوا دے دیا اس کی جان خلاصی ہو گئی، اسی باعث جہنم میں چلا گیا، دوسرے سے کہا چڑھاوا دو، کہنے لگا : میں غیر اللہ کے لئے چڑھاوا نہیں دے سکتا، بت پرستوں نے اسے قتل کر دیا، اللہ نے اسے جنت کا وارث بنا دیا۔‘‘ (حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم الأصبہاني : 1/203، وسندہٗ صحیحٌ) معلوم ہوتا ہے کہ شرک ہر دور میں ممنوع ،حرام اور رب کریم کے نزدیک مبغوض رہا ہے، اسی لئے تو مجبور ی کے عالم میں ایک مکھی چڑھا وا دینے والے کو جہنم میں جانا پڑا، آستانوں پر بکرے قربان کرنے سے پہلے اس حدیث کو باربار پڑھ لینا چاہئے۔ بعض غیر سنجیدہ آرا : 1.بعض فقہا نے لکھا ہے :