کتاب: بدعات سنت کے میزان میں - صفحہ 8
آوارگی کی مقدار تک سمجھے گا؟
یقینانہیں ، قرآن ایک ضابطہ حیات ہے، جسے بذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ نے ہمیں دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب پاک مصطفی]نے سیکھا ہے اور ہمیں سکھایا ہے، زمانہ خیر القرون کے لوگوں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھ کر ہم تک پہنچا دیا ہے۔امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتماعی ضمیر کبھی بھی گمراہی کو قبول نہیں کرسکتا، تو خیر القرون کا اجماع کیسے قرآن وحدیث کے ان معانی و مفاہیم کو خود پہ رائج کر سکتا ہے، جو قرآن میں تحریف کا سبب ہوں ، قرآن وحدیث کا مطالبہ تو قیامت تک کے ہر انسان سے ان پر عمل کا ہے،یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ قرآ ن وحدیث میں مطالبہ تو ہومگر اس مطالبے پہ عمل ہی ممکن نہ ہو، یعنی چودہ سو سال کے بعد والے انسان تک اس کا صحیح مدعا پہنچانے والے ہی موجود نہ ہوں ؟ یا کہ وہ غلط مدعا پہنچا دیں ؟ حالاں کہ قرآن خود کہتا ہے:
﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا﴾(البقرۃ : 286)
اسلام کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا، جب قرآن وسنت کا اصل مدعا ہم تک پہنچ ہی نہ پائے تو کیا اسلام پر عمل ہمارے دائرہ اختیار سے باہر کی چیز نہ ہوگی؟لہٰذا یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ اسلاف امت کو قرآن وسنت کا راز دان مان کر ان کے اقوال و اعمال کی روشنی میں قرآن و سنت کی دعوت، مدعا ، فرائض و واجبات اور عقائد و اعمال و نظریات کو سمجھا جائے۔
٭امام اوزاعی رحمہ اللہ (157ھ)فرماتے ہیں :
عَلَیْکَ بِآثَارِ مَنْ سَلَفَ، وَإِنْ رَفَضَکَ النَّاسُ. وَإِیَّاکَ وَرَأْیَ