کتاب: بدعات سنت کے میزان میں - صفحہ 76
(یا وہ فسق ہو کہ اس پر اللہ کے علاوہ کسی اور کا نام پکارا گیا ہو)ان سب فرامین باری تعالیٰ میں غیر اللہ کے لیے پکارا جانا عام ہے،اسے غیراللہ کا نام لے کر ذبح کیا جائے یا نہ کیا جائے۔جس چیز پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے، وہ بسااوقات مشروبات، ملبوسات یا عطریات سے تعلق رکھتی ہے، بلکہ بسااوقات معدنیات،مثلاً سونا،چاندی،یاقوت و مرجان وغیرہ کی ہوتی ہے اور کبھی تو کھانے کی ایسی چیز ہوتی ہے،جسے ذبح کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی،جیسا کہ مچھلی،تیل،گھی اور شہد وغیرہ(تو کیا غیر اللہ کی ایسی نذر جائز ہو جائے گی؟)۔اِہلال کا معنی آواز بلند کرنا ہے،ذبح کرنا نہیں ۔ جس کادعویٰ ہے کہ فرمانِ باری تعالیٰ : ﴿وَمَا اُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ﴾سے مراد وہ جانور ہے جس پر بوقت ِذبح غیر اللہ کا نام لیا جائے،اس نے بڑی فَحش غلطی کی ہے اور قرآنِ کریم کی ایک مطلق آیت کو بغیر کسی دلیل کے مقید اور ایک عام آیت کو بغیر دلیل کے خاص کر دیا ہے،اس نے عربی زبان میں ایسی بات شامل کرنے کی کوشش کی ہے،جسے عرب جانتے تک نہیں ۔اہل عرب کے ہاں اہلال ذبح کے معنیٰ میں نہیں ہوتا۔ بعض مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں جو یہ کہاہے کہ ایسا جانور جو بتوں اور طاغوتوں کے لیے ذبح کیا جائے۔۔۔،تو انہوں نے اس لفظ کا پورا لغوی معنیٰ نہیں کیا، بلکہ ان کا مقصود اس آیت ِکریمہ میں مراد لی گئی چیزوں میں سے ایک چیز بیان کرنا تھا، کیونکہ پہلی امتوں کے مشرکین جب کسی جانور کو اپنے معبودوں کے لیے نذر کرتے تھے تو عموماً اسے انہی معبودوں کانام لے کر ذبح کرتے تھے۔