کتاب: بدعات سنت کے میزان میں - صفحہ 7
نے خود اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگردوں نے بیا ن کیا ہو؟ یقینا کوئی بھی عقل مند و خرد مند یہی کہے گا کہ جنت کے بارے میں وہی عقیدہ درست ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے لوگوں اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھایاہو۔ ختم نبوت کا معنی لانبی بعدی ہوگا یا کسی امتی نبی کی گنجائش ہوگی؟ تو اس کی مراد ہم اسلاف امت سے سمجھیں گے، وہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دعوی نبوت کو کفر قرار دیتے ہیں تو کوئی شک نہیں کہ ختم نبوت سے مراد’’ لانبی بعدی ‘‘ ہی ہوگا۔ تو عزیزو ! اس چھوٹے سے نکتے کو سمجھ کیوں نہیں لیتے؟ کیا ہمیں یہ بات ماننے میں کوئی تامل ہے کہ قرآن و حدیث کا مدعااوراس سے ثابت ہونے والے عقائد و اعمال کو سمجھا جاچکا ہے،اب صرف ان پہ عمل باقی ہے؟کیا ایسا ممکن ہے کہ قرآن کا مدعا تو کوئی اور تھا، مگر زمانہ خیر القرون کے لوگ اسے نہیں سمجھ پائے اورہم نے سمجھ لیا، ایسا بھلا کیوں کر ممکن ہے؟ ہم اگر اپنی ذہنی اختراع کو قرآن و سنت کا مفہوم قرار دے کر اسلاف کے اجتماعی فہم کو ٹھکراسکتے ہیں تو منکرین ختم نبوت کے فہم کو غلط کرنے کا پیمانہ ہمارے پاس کیا ہوگا؟ یا آپ کہیں کہ اسلام نے عقائد و اعمال کو پرکھنے کی کوئی کسوٹی نہیں دی، بلکہ قرآن و حدیث کو عقل کے اکھاڑے میں کھڑا کردیا ہے، یہاں ہم اپنی عقلیں لڑاتے پھریں ، کشتیاں ہوں ، پہلوان آئیں ، جس میں دم زیادہ ہو وہ جیت جائے، جس میں ذرا کم ہو وہ ہار جائے، جسے چرب زبانی سے زیادہ حصہ ملے وہ قرآن و حدیث کو اپنا معنی پہنا کر سر بازار بیچتا اور کھیلتا رہے؟اور سادہ دلان امت اس کا معنی خریدیں اور اپنی زندگیو ں پہ رائج کردیں ؟قرآن وسنت کوئی پیچیدہ و غیر فہمیدہ فلسفہ ہے، جسے ہر کوئی اپنی عقل کی