کتاب: بدعات سنت کے میزان میں - صفحہ 65
ملا علی قاری رحمہ اللہ (1014ھ)لکھتے ہیں : کُلُّ مَا یُرْوٰی فِي ہٰذَا، فَلَا یَصِحُّ رَفْعُہُ الْبَتَّۃَ ۔ ’’اس بارے میں جو بھی روایت بیان کی گئی ہے، اس کا مرفوع ہونا قطعاً ثابت نہیں ۔‘‘ (الأسرار المَرفوعۃ في الأخبار الموضوعۃ المعروف بالموضوعات الکبرٰی، ص 210) علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ (1252ھ) نقل کرتے ہیں : لَمْ یَصِحَّ فِي الْمَرْفُوعِ مِنْ کُلِّ ہٰذَا شَيْئٌ ۔ ’’ان میں سے کوئی مرفوع روایت ثابت نہیں ۔‘‘ (ردّ المحتار علی الدّر المختار : 293/1) ہم کہتے ہیں کہ ان روایات کے صحیح یا ضعیف ہونے کا فیصلہ تو بعد کی بات ہے، ان کی تو سند ہی موجود نہیں ہے۔ تنبیہ : 1.علامہ ملا علی قاری رحمہ اللہ (1014ھ)لکھتے ہیں : إِذَا ثَبَتَ رَفْعُہٗ عَلَی الصَّدِّیقِ فَیَکْفِي الْعَمَلُ بِہٖ ۔ ’’جب صدیق رضی اللہ عنہ تک سند ثابت ہوگئی ہے، تو عمل کے لیے کافی ہے۔‘‘ (الموضوعات الکبرٰی، ص 210) اس کی سند بھی موجود نہیں ہے، علامہ علی قاری رحمہ اللہ کو شاید اشتباہ ہوگیا ہوگا۔ 2.احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب (1391ھ) ’’انجیل برنباس‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں : ’’اس میں لکھا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے روح القدس (نور ِ مصطفوی) کے