کتاب: بدعات سنت کے میزان میں - صفحہ 64
’’یہ روایت مجہولین کی بیان کردہ ہے، انقطاع بھی ہے۔‘‘ اس روایت کی سند بھی موجود نہیں ہے، بعضے نادان دوست مجاہیل کی روایت کو ضعیف کہنے سے گریزاں ہوتے ہیں ، لیکن مجاہیل کا مسئلہ تو تب پیش آئے، جب سند موجود ہو، سند ہی اگر موجود نہیں ، تو مجہول کی روایت کے صحیح یا ضعیف ہونے کی بحث سے حاصل؟ امام شافعی رحمہ اللہ کا فرمان البتہ اس سلسلہ میں سن لیجئے : لَا نَقْبَلُ خَبَرَ مَنْ جَہِلْنَاہُ، وَکَذٰلِکَ لَا نَقْبَلُ خَبَرَ مَنْ لَّمْ نَعْرِفْہُ بِالصِّدْقِ وَعَمَلِ الْخَیْرِ ۔ ’’ہم محدثین مجہول راوی کی حدیث قبول نہیں کرتے، نہ ہی اس شخص کی روایت قبول کرتے ہیں ، جس کی سچائی اور نیکی ہم نہیں جانتے۔‘‘ (إختلاف الحدیث : 13، معرفۃ السّنن والآثار للبیہقي : 12/1) دین متصل روایات کا نام ہے۔ صحیح حدیث کی شرطوں میں بنیادی شرط اتصال سند ہے، یہاں تو سرے سے سندیں ہی موجود نہیں ، اتصال کہاں سے ہوگا! ان روایات کے بارے میں اہل علم کی آرا : ان روایات کے متعلق علما کی آرا سن لیں : حافظ سخاوی رحمہ اللہ (902ھ) لکھتے ہیں : لَا یَصِحُّ فِي الْمَرْفُوْعِ مِنْ کُلِّ ہٰذَا شَيْئٌ ۔ ’’اس معنی کی مرفوع احادیث میں سے کوئی بھی ثابت نہیں ۔‘‘ (المقاصد الحسنۃ، ص 385)